بیجنگ ()
حال ہی میں، چائنا انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف گرین فنانس کی ڈائریکٹر اور گرین فنانس شعبے کی ماہر ڈاکٹر وانگ یاؤ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ چین پائیدار مالیات کو خواتین کی ترقی اور صنفی فرق کو کم کرنے کی نئی حکمت عملی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مالیات اور خواتین کے درمیان تعلق دو طرفہ ہے: ایک طرف تو مالیاتی شعبہ خواتین کے لیے نئے مواقع پیدا کر رہا ہے ، ان کے معاشی اختیارات ،قیادت اور فیصلہ سازی میں شرکت میں تعاون کر رہا ہے ؛ دوسری طرف، خواتین خود مالیات کو نئی شکل دے رہی ہیں اور سبز اور پائیدار ترقی کے شعبے میں جدت کو فروغ دے رہی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے عالمی چیلنج اور پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے کے پس منظر میں، صنفی مساوات اور گرین فنانس کا انضمام ایک اہم حکمت عملی بن گیا ہے، جسے بین الاقوامی برادری کی وسیع توجہ حاصل ہوئی ہے۔ عالمی پائیدار ترقی کا ایک اہم شریک ہونے کے ناطے، چین پائیدار مالیات اور خواتین کی ترقی کو یکجا کرنے کے راستوں کو فعال طور پر دریافت کر رہا ہے، جو نہ صرف سماجی انصاف کے حصول کی عکاسی ہے، بلکہ ساختی اصلاحات کے ذریعے موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کی اثر انگیزی کو بڑھانے کی حکمت عملی کا بھی اظہار ہے ۔
چین کے مالیاتی شعبے کی ساخت صنفی مساوات کے لیے ایک فطری بنیاد مہیا کرتی ہے، جس میں خواتین ملازمین کی شرح نصف سے زیادہ ہے، جو نہ صرف تعداد میں مساوات ، بلکہ مالی فیصلہ سازی میں خواتین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو بھی ظاہر کرتی ہے ۔ مالیاتی شعبے میں جدید کریڈٹ میکانزم اور مخصوص سپورٹ پالیسیز خواتین کے معاشی اختیارات کو ٹھوس مدد فراہم کر رہی ہیں ۔ مثال کے طور پر،صوبہ شانڈونگ کی ’’خواتین کے لئے قرض ‘‘جیسی مخصوص کریڈٹ پراڈکٹس، ہدف شدہ فنانسنگ سروسز کے ذریعے خواتین کی کاروباری رکاوٹوں کو کم کرتی ہیں، جس سے مالی وسائل بنیادی سطح کی خواتین تک زیادہ مؤثر طریقے سے پہنچتے ہیں۔ اس قسم کے جامع مالیاتی تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ جب مالیاتی نظام فعال طور پر صنفی نقطہ نظر کو شامل کرتا ہے، تو یہ معاشی فرق کو کم کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ بن سکتا ہے۔
گرین ڈویلپمنٹ کو فروغ دینے میں،چینی خواتین کی شمولیت منفرد فوائد ظاہر کر رہی ہے ۔ ’’ڈبل کاربن‘‘ ہدف کے آغاز کے بعد سے، خواتین کی گرین سیکٹر میں شرکت مسلسل بڑھ رہی ہے، ان کی فطری اور اختراعی صلاحیتیں مالیاتی شعبے کی ماحولیاتی اقدار کو بتدریج نئی شکل دے رہی ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین مینیجر طویل مدتی فیصلہ سازی کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہیں، اور ماحولیاتی خطرے کے انتظام اور گرین پراجیکٹس کے جائزے میں ان کی کارکردگی نمایاں ہے۔ یہ خصوصیت خواتین کو گرین فنانس کی جدید کاری میں اہم محرک بناتی ہے اور مالیاتی اداروں کو معاشی فوائد کے حصول سے ہٹ کر ماحولیاتی اور سماجی فوائد کو یکجا کرنے والی جامع قدر کی تخلیق کی طرف راغب کرنے میں مدد کرتی ہے۔
چین کی کیپٹل مارکیٹ کی ادارہ جاتی جدید کاری نے اس فائدے کو مزید مضبوط کیا ہے۔ 2024 میں چائنا سیکیورٹیز ریگولیٹری کمیشن نے ’’لسٹڈ کمپنیوں کی پائیدار ترقی کی رپورٹ گائیڈ‘‘ جاری کی، جس میں لسٹڈ کمپنیوں سے صنف سے متعلقہ اعداد و شمار کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا گیا، اور صنفی مساوات کے اشاریوں کو کارپوریٹ گورننس ایویلیوایشن سسٹم میں شامل کیا گیا۔ اس اقدام نے نہ صرف کاروباری انتظام میں خواتین کی نمائندگی کو بڑھایا ہے، بلکہ مارکیٹ میکانزم کے ذریعے کمپنیوں کو صنفی تنوع پر زیادہ توجہ دینے پر مجبور کیا ہے۔ اس قسم کے ادارہ جاتی ڈیزائن صنفی مساوات کے تصورات کو قابل پیمائش انتظامی اشاریوں میں تبدیل کرتے ہیں، جو اعلیٰ فیصلہ سازی میں خواتین کی شرکت کے لیے ادارہ جاتی راستے کھولتے ہیں۔
چین کا دوسرا فائدہ صنفی مساوات کو قومی حکمرانی کے نظام میں مکمل طور پر شامل کرنا ہے۔ قانونی تحفظ، پالیسی رہنمائی اور مارکیٹ کی مراعات میں متنوع ہم آہنگی کے ذریعے، خواتین کی ترقی کو سپورٹ کرنے والا ایک ادارہ جاتی ماحول تعمیر کیا گیا ہے۔ گرین فنانس پالیسیوں میں صنفی نقطہ نظر کو شامل کرنا، بین الاقوامی پائیدار ترقی کے لئے وعدوں کی تکمیل بھی ہے، اور ملکی حالات پر مبنی عملی اختراع بھی۔ یہ نظامی سوچ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ صنفی مساوات کوئی الگ تھلگ مسئلہ نہیں ، بلکہ معاشی و سماجی ترقی کے پورے عمل میں سرائیت کر چکا ہے۔ اسی دوران، چین صنفی اعداد و شمار کے اشاریوں کے قیام، معلومات کو منظر عام پر لانے کے میکانزم کو بہتر بنانے جیسے اقدامات کے ذریعے متعلقہ میکانزم کو بھی مسلسل بہتر بنا رہا ہے۔ جیسے جیسے گرین فنانس کے معیاری نظام اور صنفی مساوات کی پالیسیوں کا انضمام گہرا ہوگا، مستقبل میں چینی خصوصیات کے حامل پائیدار ترقی کے حل کی تشکیل متوقع ہے۔
پائیدار مالیات اور صنفی مساوات کا انضمام عمومی معنوں میں سماجی انصاف کے مسئلے سے بالاتر ہو کر ترقی کے نمونے کی اہم اصلاح بن گیا ہے۔ چین کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب مالیاتی نظام خواتین کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر اجاگر کرتا ہے، تو نہ صرف گرین ٹرانزیشن تیز ہوتی ہے، بلکہ ایک زیادہ جامع ترقی کا نمونہ بھی پروان چڑھتا ہے۔ انسانیت کی مرکزیت پر مبنی پائیدار ترقی کا یہ نقطہ نظر، درحقیقت انسانی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کی اہم عملی شکل ہے۔ مستقبل میں، چین پالیسی کی ہم آہنگی کو مزید گہرا کرےگا اور مالیاتی ذرائع میں اختراعات کے فروغ کا عمل جاری رکھے گا ، تاکہ صنفی مساوات کو گرین ڈویلپمنٹ کا ایک ایکسلریٹر بنایا جا سکے، اور ایک زیادہ منصفانہ اور پائیدار مستقبل کی طرف اجتماعی طور پر سفر جاری رکھا جا سکے۔