بیجنگ ()
دوسری جنگ عظیم کےمرکزی مشرقی محاذ کی حیثیت سے ، چین نے 14 سال کی کٹھن جدوجہد کے بعد جاپانی فوجی حملہ آوروں کو مکمل طور پر شکست دی اور فسطائیت مخالف عالمی جنگ کی حتمی فتح میں ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں۔ دوسری جنگ عظیم کی فتح کی بنیاد پر چین نے فسطائیت مخالف اتحادیوں کے ساتھ مشاورت سے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا اور مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کے منشور سمیت دیگر اہم بین الاقوامی دستاویزات کا ایک سلسلہ تشکیل دیا، جس نے جدید بین الاقوامی نظام کی بنیاد رکھی۔
جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوام کی مزاحمتی جنگ اور فسطائیت مخالف عالمی جنگ کی فتح سےملنے ولا سب سے قیمتی پیغام یہ ہے کہ ہمیں پرامن ترقی کے راستے پرثابت قدمی سے گامزن رہنا ہوگا۔ ایک صدی کی بڑی تبدیلیوں کے پیش نظر چینی صدر شی جن پھنگ نے گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو پیش کرتے ہوئے ایک مشترکہ، جامع، پائیدار اور تعاون پر مبنی سلامتی کے تصور کی وکالت کی اور سلامتی کے مسئلے کے لئے بنیادی حل فراہم کیا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تاریخی مصالحت سے لے کر فلسطینی سیاسی دھڑوں کے درمیان بیجنگ اعلامیے کی تکمیل تک اور پھر بین الاقوامی ثالثی عدالت کے قیام تک، چین نے ہمیشہ پرامن مذاکرات کو فروغ دینے اور ایک شورش زدہ دنیا میں استحکام اور یقین فراہم کرنے کے لئے کام کیا ہے۔
آج ، اگرچہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کو اسی سال گزر چکے ہیں، لیکن کچھ لوگ ابھی بھی تاریخ کو مسخ کرنے اور جارحیت کے جرم کو مسترد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کچھ ممالک بالادستی اور یکطرفہ تسلط پر عمل پیرا ہیں، جس سے دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کی مرکزیت پر مبنی بین الاقوامی نظام پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ عالمی امن کے حصول کے لیے عالمی برادری کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی عوام اور دنیا کے عوام نے مل کر اس عظیم فتح کی یادگاری تقریب کا اہتمام کیا تاکہ تاریخ سے سبق سیکھ کر مشترکہ طور پر دوسری جنگ عظیم کی فتح کے ثمرات کا دفاع کرتے ہوئے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دیا جائے اور دنیا میں دیرپا امن و امان قائم رہے۔