واشنگٹن : امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین نے 15 فیصد شرح محصولات پر معاہدہ کر لیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت یورپی یونین پہلے کی نسبت امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کرے گی، امریکی فوجی سازوسامان کی خریداری بڑھائے گی اور 150 ارب ڈالر کی امریکی توانائی مصنوعات خریدے گی۔ یورپی کمیشن کی صدر وان ڈیر لیین نے کہا کہ یورپی یونین اور امریکہ دونوں 15 فیصد یکساں شرح محصولات پر متفق ہو گئے ہیں، جس میں گاڑیوں سمیت دیگر تمام اقسام کی اشیا شامل ہوں گی۔ وان ڈیر لیین نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ یہ تجارتی معاہدہ مارکیٹ میں استحکام لائےگا۔ اسی دن امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ صدر ٹرمپ نے دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک کا دروازہ کھول دیا ہے، یورپی یونین اپنی 20 ٹریلین ڈالر کی مارکیٹ کو کھولے گی اور پہلی بار مکمل طور پر امریکی گاڑیوں اور صنعتی معیارات کو قبول کرے گی۔تاریخی تناظر میں ، امریکہ اور یورپ کے تجارتی تعلقات ہمیشہ ’’حلیف‘‘اور ’’حریف‘‘کی دوہری شناخت کے گرد ڈولتے رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں، سٹیل اور ایلومینیم کے محصولاتی تنازعات سے لے کر ڈیجیٹل سروس ٹیکس کی دوڑ تک، بحر اوقیانوس کے پار تجارتی کشمکش کبھی ختم نہیں ہوئی۔ اس دفعہ امریکہ کے لیے 600 ارب ڈالر کی نئی سرمایہ کاری کا وعدہ اور 150 ارب ڈالر کی توانائی مصنوعات کی خریداری، نہ صرف امریکہ کی گھریلو مینوفیکچرنگ میں روزگار کے دباؤ کو کم کر سکتی ہے بلکہ توانائی کی برآمدی برتری کو بھی مضبوط بنا سکتی ہے، جو ٹرمپ کی ایک حکمت عملی کی فتح سمجھی جا سکتی ہے۔ البتہ یورپی یونین کا حساب کتاب بھی پیچیدہ ہے۔ توانائی کی خودمختاری اور سلامتی خدشات کے دہرے دباؤ کے تحت، امریکی فوجی سازوسامان کی خریداری سے قلیل مدت میں دفاعی خودمختاری کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے، جبکہ یکساں شرح محصولات سے لڑکھڑاتی یورپی گاڑیوں کی صنعت کو استحکام مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جرمن گاڑیوں کی صنعت یورپی یونین کے جی ڈی پی کا 4 فیصد ہے، اور کوئی بھی تجارتی اتھل پتھل یوروزون کی معیشت کو ہلا کر رکھ سکتی ہے۔ وان ڈیر لیین کا زور "مارکیٹ استحکام” پر درحقیقت توانائی کے بحران اور معاشی کساد بازاری کے خطرے سے دوچار یورپ کے لیے کچھ سانس لینے کی جگہ حاصل کرنا ہے۔تاہم، اس معاہدے کے منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 15 فیصد کی یکساں شرح محصولات عارضی طور پر دونوں فریقوں کے درمیان توازن کا نقطہ نظر لگتی ہے، لیکن یہ عالمی تجارتی نظام کے لیے منفی اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ جب امریکہ اور یورپ محصولات پر "متحدہ محاذ” تشکیل دیتے ہیں، تو عالمی سپلائی چینز مخصوص خطوں میں مرتکز ہونے لگتی ہیں، جو ڈبلیو ٹی او کے عدم امتیاز کے اصولوں کی صریح نفی ہے۔ زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ معاہدے میں "امریکی توانائی مصنوعات کی خریداری” کی اصطلاح واضح تجارتی رجحان کی حامل ہے، جو "فرینڈ شورنگ” کے رجحان کو مزید تقویت دے کر عالمی مارکیٹ کی ڈسٹری بیوشن کارکردگی کو کم کر سکتی ہے۔ظاہر ہے ، جب ڈبلیو ٹی او کا تنازعات کے حل کا میکانزم غیر فعال ہے، تو بڑی طاقتوں کے درمیان دو طرفہ معاہدوں کے ذریعے قواعد و ضوابط طے کرنے کا رجحان مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ "کلب نما” قواعد سازی مخصوص فریقوں کے درمیان کچھ اختلافات کو جلدی حل کر سکتی ہے، لیکن اس سے عالمی تجارتی نظام کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خطرہ ہے — ترقی یافتہ ممالک اپنی مذاکراتی صلاحیت کے بل پر "اعلیٰ معیار” کے قواعد کا حلقہ بنا لیں گے، جبکہ ترقی پذیر ممالک کو مختلف قواعد کے نظاموں سے خود کو مشکل سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔مستقبل میں، اس معاہدے کے استحکام کا انحصار ایک طرف تو امریکہ اور یورپ کے اندرونی سیاسی ماحول کے توازن پر ہے — ٹرمپ کو قدامت پسندوں کے لیے "امریکہ فرسٹ” کے اثرات ثابت کرنے ہوں گے، جبکہ وان ڈیر لیین کو یورپی یونین کے اندر فرانس اور جرمنی جیسے ممالک کے مفادات کے فرق کو سنبھالنا ہوگا۔ دوسری طرف یہ عالمی تجارتی نظام پر منحصر ہے کہ وہ اتھل پتھل میں کسی حد تک متحرک توازن برقرار رکھ سکتا ہے یا نہیں۔ علاقائی معاہدوں کو خصوصی گروہوں میں بدلنے سے کیسے بچایا جائے، یہ پالیسی سازوں کی عقل کا امتحان ہے۔اس غیر یقینی کے دور میں، امریکہ اور یورپ کے درمیان ہونے والا یہ محصولاتی سمجھوتہ درحقیقت عالمی میدان میں طاقت اور مفادات کی کشمکش کا تسلسل ہے۔ جب امریکہ اور یورپ "کلب نما” معاہدوں کے ذریعے ڈبلیو ٹی او کے کثیر جہتی فریم ورک کو کمزور کرتے ہیں، تو ترقی پذیر ممالک کو’’ قواعد قبول کرنے‘‘اور’’پیچھے رہنے‘‘ کے درمیان مشکل انتخاب کرنا پڑتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ عالمگیر چیلنجز اور انسانی ہم نصیب معاشرے کے مستقبل کے سامنے ،کسی بھی یکطرفہ حکمت عملی کی سوچ دانش مندی نہیں ہے۔ توازن کی قیود سے ہٹ کر کیے گئے کسی بھی تجارتی انتظام کا اثر آخرکار اس کے استحکام کو ہی نقصان پہنچاتا ہے، اور اس امریکی یورپی محصولاتی معاہدے سے بھی یہی ہوتا نظر آتا ہے ۔بہرحال، مجھے اب بھی یقین ہے کہ گلوبلائزیشن کی کہانی ختم نہیں ہوئی ہے، بلکہ ایک زیادہ پیچیدہ طریقے سے دوبارہ لکھی جا رہی ہے۔