بیجنگ:چین کو ٹٹولتے ہوئے دریا پار کرنا”۔ یہ فقرہ آج کل کے دور میں کئی ممالک کی جانب سے چین کے ترقیاتی تجربات سے استفادہ کرنے کے عمل کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ اصل میں چین کے مرحوم معاشی رہنما چھن یون کے 1950 میں پیش کردہ ایک نعرے "پتھروں کو ٹٹولتے ہوئے دریا پار کرو” کی جدید شکل ہے، جس کا مطلب یہ تھا کہ معاشرتی و معاشی ترقی اور اصلاحات کے تجربے کی کمی کے دور میں بڑے پیمانے پر تجربات کریں، متجسس انداز میں راستہ تلاش کریں، اصولوں کو سمجھیں اور مستحکم طور پر آگے بڑھیں۔1978 میں شروع ہونے والی چین کی اصلاحات و کھلے پن کی پالیسی اسی "پتھروں کو ٹٹولتے ہوئے دریا پار کرو” کے اصول پر عمل کرتی رہی، جس میں مقامی سطح پر تجربات کرنے، تجربات سے سبق سیکھنے اور پھر انہیں وسیع پیمانے پر نافذ کرنے کے ذریعے چین نے اپنی قومی خصوصیات کے مطابق ترقی کا راستہ تلاش کیا۔ آج کئی ممالک چین کے اس ترقیاتی ماڈل سے استفادہ کر رہے ہیں اور قابل ذکر کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔
"چین کو ٹٹول کر دریا پار کرنا” کا یہ فقرہ چین کے عالمی اثرات کی عکاسی کرتا ہے۔جب ویتنام نے چین کی اصلاحات کی تقلید کرتے ہوئے 6% سالانہ شرح نمو کے ساتھ "جنگ کے بعد ترقیاتی معجزہ” تخلیق کیا، جب روانڈا چینی ماڈل اپنا کر افریقہ کی نئی ترقیاتی قوت بن کر ابھرا، جب امریکی اعلیٰ عہدیدار نے چین کی "طویل المدتی منصوبہ بندی کی صلاحیت” سے سیکھنے کی بات کی ، تو عوامی مرکزیت پر مبنی، عملی اور کھلے چینی ترقیاتی نمونے نے عالمی سطح پر اپنی افادیت ثابت کی ہے، جو نظریات سے بالاتر ہو کر ایک جدید ترقیاتی نقطہ نظر اور کامیابی کا راستہ بن چکا ہے۔ویتنام کی مثال لیجئے۔ بہت سے چینی باشندوں کی نظر میں ویتنام خوراک، لباس، رہائش اور نقل و حمل سے لے کر ثقافت اور معیشت تک ایک "چین کا چھوٹا ورژن” لگتا ہے۔ ان کی اصلاحات کی راہ بھی واضح طور پر چینی انداز کی پیروی کرتی ہے۔ ویتنام نے 1986 سے چین کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اصلاحات پر مبنی اور کھلی پالیسی اپنائی اور سوشلسٹ مارکیٹ معیشت قائم کی۔ ابتدائی اصلاحات میں سنگین معاشی بحران کے پیش نظر کچھ محدود اور بتدریج اقدامات کیے گئے، جیسے کہ زراعت، صنعت اور بیرونی تجارت پر کنٹرول میں نرمی، نجی کاروبار اور مارکیٹ لین دین کی اجازت، کسانوں کو زمین کے استعمال کے حقوق کی تقسیم وغیرہ۔ بعد میں وسیع پیمانے پر گہری اصلاحات کی گئیں جن میں سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی کا قیام، غیر اہم شعبوں میں نجی ملکیت کو تسلیم کرنا، سرکاری اداروں کی اصلاح اور نجی شعبے کی ترقی، عالمی تجارتی تنظیم اور علاقائی معاشی گروپوں میں شمولیت، اور کھلے پن کی پالیسیاں شامل ہیں۔ان اقدامات نے ویتنام کی معاشی ساخت کو بنیادی طور پر تبدیل کر دیا اور بین الاقوامی سطح پر انضمام کو فروغ دیا، جس سے ویتنام جنوب مشرقی ایشیا کی تیز ترین ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک بن گیا۔
صرف ویتنام ہی نہیں، بلکہ گلوبل ساؤتھ کے وسیع خطوں میں چین کے تجربات مقامی حالات کے مطابق ترقیاتی قوت میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ازبکستان نے غربت کے خلاف قومی حکمت عملی اور اہداف طے کیے ہیں اور تمام صوبوں میں غربت کے خلاف چین کے تجربات کو آزمایا جا رہا ہے۔ تقریباً دس ہزار ازبک شرکاء نے غربت کے خلاف چین کے آن لائن تربیتی کورسز میں حصہ لیا۔ ازبکستان نے کمیونٹی پر مبنی ایک نظام قائم کیا ہے جس میں "غریب خاندانوں کی مدد کی فہرست”، "خواتین کی مدد کی فہرست” اور "نوجوانوں کی مدد کی فہرست” اہم حصہ ہیں، اور اس کے نمایاں نتائج سامنے آئے ہیں۔ایسی اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ان عملی اقدامات سے چینی ماڈل کی روح واضح ہوتی ہے: ریاستی رہنمائی اور مارکیٹ کی سرگرمیوں کا باہمی تعاون، بنیادی ڈھانچے اور صنعتی منصوبہ بندی کے ذریعے ترقی کی بنیاد رکھنا، اور مخلوط ملکیت کے نظام کے ذریعے معیشت کو خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت فراہم کرنا۔ تبدیل ہوتی معیشتوں کے لیے چین نے بتدریج اصلاحات کا ایک سائنسی طریقہ کار پیش کیا ہے، جس میں "پائلٹ پراجیکٹس – وسیع نفاذ” کا طریقہ کار انتہائی تبدیلیوں کے جھٹکوں سے بچاتا ہے، جبکہ کھلے پن کی پالیسی اصلاحات کے لیے قوت محرکہ بنتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک بھی چینی راستے کی اہمیت کو دوبارہ دریافت کر رہے ہیں۔ امریکہ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے حال ہی میں کہا کہ چین کے ساتھ تین سال کے تعلقات سے انہیں بہت فائدہ ہوا۔ انہوں نے خاص طور پر چین کی "طویل المدتی اور مسلسل حکمت عملی” اور دوسرے ممالک کے ساتھ ترقی کے فوائد بانٹنے پر مبنی "باہمی تعاون سے جیت جیت” ماڈل کا ذکر کیا۔
صرف امریکہ ہی نہیں، موسمیاتی تبدیلی کے شعبے میں چین نے "کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی” کے اہداف کو صنعتی مواقع میں تبدیل کر کے "چیلنجز کو قوت میں بدلنے” کا عملی فلسفہ پیش کیا ہے، جس سے یورپی یونین کی گرین ڈیل نے بھی استفادہ کیا ہے۔ "بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو نے 150 سے زائد ممالک کے تعاون کے نیٹ ورک کے ذریعے مشاورت، مشترکہ تعمیر اور فوائد کی برابر کی شراکت کے نظریے سے کثیر الجہتی نظام کی روح کو نئی شکل دی ہے، جس نے زیرو سم گیم کی سوچ کو ترک کرتے ہوئے "شراکت” کو انسانی ترقی کا نیا اصول بنا دیا ہے۔بلاشبہ، دنیا کو محض کسی ایک ماڈل کی نقل کی نہیں، بلکہ تحریک کے مختلف ذرائع کی ضرورت ہے۔ ویتنام کی فیکٹریوں کی مشینوں کی آوازیں، صحارا ریگستان میں شمسی پینلز، اور ڈیووس فورم میں "نئ معیاری پیداواری صلاحیتوں” پر بحث ، یہ سب مل کر کسی اندھی تقلید کے بجائے متنوع ترقی کی ایک ہم آہنگ تصویر پیش کرتے ہیں۔ چینی راستے کی حتمی معقولیت یہ ثابت کرتی ہے کہ ہر ملک اور قوم اپنے قومی حالات کے مطابق اپنے لیے موزوں ترقی کا راستہ تلاش کر سکتی ہے، اور یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ انسانیت بالادستی کے نظریات اور طاقت پر انحصار کے نظریوں سے بالاتر ہو کر آزاد انہ جدت طرازی اور مشترکہ تقدیر کے توازن میں جدید تہذیب کی تعمیر کر سکتی ہے۔