اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ میں نئے ججز کی آمد کے بعد متعدد انتظامی کمیٹیوں میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کردیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنی سربراہی میں 6 رکنی کیس مینجمنٹ کمیٹی تشکیل دے دی جس میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس محمد شفیع صدیقی اور ایڈیشنل رجسٹرار (جوڈیشل) شامل ہیں، آئی ٹی ڈائریکٹر اس کے سکریٹری ہوں گے، کمیٹی کیس مینجمنٹ کو ہموار کرکے عدالتی کام میں کارکردگی کو یقینی بنائے گی۔
چیف جسٹس نے پاکستان میں خصوصی عدالتوں (انسداد دہشت گردی عدالتوں) کے افعال اور کارکردگی کی نگرانی کیلئے سپریم کورٹ کے 5 ججوں کو بھی مقرر کیا،جسٹس مسرت ہلالی خیبر پختونخوا میں اے ٹی سیز کے مانیٹرنگ جج ہوں گی جبکہ جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس ہاشم خان کاکڑ اور جسٹس صلاح الدین پنہور بالترتیب پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں مانیٹرنگ ججز کی حیثیت سے کام کریں گے، جسٹس عامر فاروق اسلام آباد کی خصوصی عدالتوں کے مانیٹرنگ جج ہوں گے۔
چیف جسٹس نے جسٹس ملک شہزاد احمد، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل کمیٹی کو ماڈل کورٹس کی نگرانی کا ٹاسک بھی سونپ دیا۔
سپریم کورٹ کی آئی ٹی افیئرز کمیٹی میں بھی ردوبدل کیا گیا ہے جس میں چیف جسٹس اس کے چیئرمین ہوں گے جبکہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اس کے ارکان ہوں گے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے یہ بھی حکم جاری کیا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر فائیو کے تحت چیمبرز میں متفرق اپیلیں اور آرڈر کے لیے درخواستیں چیف جسٹس اور دیگر ججز کے سامنے پیش کی جائیں گی، اسی طرح سپریم کورٹ رولز 1980 کے رول 3 آرڈر فائیو کے تحت رجسٹرار کے حکم کے خلاف اپیل بھی چیف جسٹس کے سامنے پیش کی جائے گی تاکہ انہیں 5 سینئر ججز میں سے کسی کو تفویض کیا جاسکے۔
دیوانی مقدمات واپس لینے کی اجازت کے لیے درخواستیں فیصلے کے لیے جسٹس حسن اظہر رضوی کے روبرو پیش کی جائیں گی، جسٹس ہاشم کاکڑ سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر 5 رولز 2 (10) کے تحت ملزم/ اپیل گزار کے سرنڈر نہ کرنے پر اعتراضات اور فوجداری مقدمات / نیب مقدمات واپس لینے کی اجازت کے لیے دائر درخواستوں پر متفرق فوجداری اپیلوں کی نگرانی کریں گے۔
جسٹس صلاح الدین پنہور سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر28 کے تحت ٹیکسنگ افسر/ رجسٹرار کی جانب سے واپس کیے گئے ٹیکس بلوں کی درخواستوں کی سماعت کریں گے جبکہ جسٹس شکیل احمد درخواستوں/ اپیلوں کی درخواستوں میں ترمیم، وقت میں توسیع یا تخفیف کی درخواستوں، یکطرفہ احکامات کو کالعدم قرار دینے اور کسی فریق کو شامل کرنے سے متعلق درخواستوں کا فیصلہ کریں گے۔