چین کا حیرت انگیز ہائی اسپیڈ ریلوے نظام


تحریر: اعتصام الحق
کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو بیجنگ سے شنگھائی تک ٹرین کے ذریعہ پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ یہ فاصلہ تقریبا 1200 کلومیٹر ہے جو پاکستان کے اعتبار سے سندھ کے شہر حیدرآباد سے دار الحکومت اسلام آباد کےتقریباً برابر ہے ۔اس کا جواب ہے چار گھنٹے اور 18 منٹ۔ کیوں کہ آپ 350 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز رفتار ٹرین پر سوار ہوں گے اور 1200 کلومیٹر کا یہ فاصلہ انتہائی آرام کے ساتھ صرف چار گھنٹے اور 18 منٹ میں طے ہو جائے گا ۔لیکن چین کی ریل ہمیشہ اتنی تیز نہیں تھی۔
یہ سن 2008 تھا جب بیجنگ کے ساؤتھ ریلوے اسٹیشن سے ایک تیز رفتار انٹرسٹی ٹرین کو چلایا گیا تو اس نے چین کے ریل نیٹ ورک کو ایک نئے تیز رفتار دور میں داخل کر دیا ۔
یہ بات نہایت حیرت انگیز ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ، چین نے اپنے تیز رفتار ریل نیٹ ورک میں 35000 کلومیٹر سے زیادہ کا اضافہ کیا ہے ۔صرف راستہ ہی نہیں بلکہ رفتار میں بھی حیران کن ترقی دیکھی گئی ہے اور اب یہ ہائی اسپیڈ ٹرینز 350 کلو میٹر گی گھنٹہ کی رفتار سے مسافت طے کرتی ہیں ۔یہ سفر انتہائی آرام دہ بھی ہے اور سفر کے اوقات کی پابندی،سہولیات اور حفاظت کے اعتبار سے بھی ناقابل یقین ہے ۔گزشتہ دنوں اس ہائی اسپیڈ ٹرین میں آن لائن کھانے کی سہولت بھی فراہم کر دی گئی ہے اور یہ آن لائن کھانا مسافر کے علاوہ وہ لوگ بھی اپنے جاننے والوں کے لیے منگوا سکتے ہیں جو خود اس ٹرین میں سفر نہ کر رہے ہوں ۔ٹرین کے اسٹاپ پر رکنے پر کھانے کی ڈیلیوری ٹرین کے عملے کو کر دی جائے گی اور عملہ اسے اس کے منگوانے والے تک پہنچا دے گا ۔
دنیا بھر میں اس طرح کی ہائی اسپیڈ ٹرینز کا ترقی یافتہ ممالک میں چلنا کوئی انہونی بات نہیں لیکن کسی ایسے ملک کا اپنے عوام کو اس طرح کی سہولیات دینا جس کی فی کس مجموعی ملکی پیداوار 7000 ڈالر سے کم ہو ،توجہ طلب ہے۔اس بات کا اعتراف عالمی بینک کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے کہ چین وہ پہلا ملک ہے جس کی فی کس مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) 7,000 ڈالر سے کم ہے اور اس نے ایچ ایس آر نیٹ ورک کی ترقی میں سرمایہ کاری کی ہے۔
اس کامیاب سفر کا آغاز 2004 میں درمیانی اور طویل مدتی ریلوے منصوبے (ایم ایل ٹی آر پی) کی منظوری تھی۔ جب مال برداری کا حجم تیزی سے بڑھ رہا تھا اور موجودہ ریلوے کی کم رفتار نے مسافر وں کی نقل و حمل کو کسی حد تک محدود کرنا شروع کر دیا تھا۔
اس منصوبے میں یہ ارادہ ظاہر کیا گیا تھا کہ 2020 تک قومی ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ 100000 کلومیٹر تک بڑھ جائے گا ، جس میں سے 12000 کلومیٹر تیز رفتار ہوگا ، اور تمام بڑے شہروں کو جوڑنے کے لئے چار افقی اور چار عمودی راہداریاں قائم کی جائیں گی۔تفصیلی منصوبوں کی منظوری کے بعد ،ابتدائی مرحلے میں ، جرمنی اور فرانس جیسے کچھ یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ جاپانی سپلائرز کے ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی کے معاہدوں کے تحت تعمیر کو آگے بڑھایا گیا ، لیکن چین نے فوری طور پر مقامی استعمال کے لئے ڈیزائن کو اپنایا اور اسےبہتر بنایا۔اس شعبے میں حاصل کیے گئے تجربے کی بنیاد پر چین نے ہائی اسپیڈ ریلوے آلات کی بین الاقوامی معیار کی تیاری کے لیے بین الاقوامی ریلوے یونین کے ساتھ بھی کام کیا ۔یہ عمل درآمد پانچ سالہ ریلوے ترقیاتی منصوبوں (ایف وائی پیز) کی ایک سیریز کے ذریعے کیا گیا تھا جس میں 2020 تک ہر پانچ سالہ سائیکل میں شروع کیے جانے والے منصوبوں کا تعین کیا گیا تھا اور اس پر مزید نظر ثانی 2016 میں کی گئی۔ نیٹ ورک کا ڈھانچہ اپنے اصل یعنی "چار عمودی اور چار افقی” راہداریوں سے بڑھ کر "آٹھ عمودی اور آٹھ افقی” راہداریوں تک پھیل گیا ، جسے مزید علاقائی اور انٹرسٹی ریل لنکس کے ساتھ پورا کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ۔2020 کا ہدف ایک ایسا ریلوے نیٹ ورک تھا جو 150000 کلومیٹر کا احاطہ کرتا ہو اور اس میں 35000 کلومیٹر سے زیادہ ہائی اسپیڈ ریلوے شامل ہو تا کہ اس کے بعد ایچ ایس آر نیٹ ورک تقریبا تمام بڑے اور درمیانے شہروں کو جوڑ دے ۔
اس منصوبے کا اصل مقصد ملک کے اوور لوڈڈ نیٹ ورک کی صلاحیت کو بڑھانا اور مسافر خدمات کو بڑھانا تھا۔ لیکن اس کے فوائد کی بدولت اس نے علاقائی اور صوبائی رابطوں کو بہتر بنایا اور معاشی ترقی اور شہرکاری کی حمایت کے لیے ایک مضبوط محرک کے طور پر کام کیا ہے۔
1949 میں عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی گئی تو بیجنگ سے شنگھائی تک ٹرین میں تقریبا 37 گھنٹے لگتے تھے۔2008 میں ، بیجنگ سے شمالی بندرگاہ کے شہر تیانجن تک چین کی پہلی تیز رفتار ریل (ایچ ایس آر) لائن نے سفر کے وقت کو دو گھنٹے سے 30 منٹ تک کم کردیا ، جو چین کے ریلوے نظام کی ترقی میں ایک نئے دور کی نشاندہی تھی ۔
چین کا ایچ ایس آر اب 34 میں سے 30 صوبائی سطح کے انتظامی ڈویژنز میں پھیلا ہوا ہے اور مسافر 10 گھنٹوں کے اندر بیجنگ سے تقریباً 23 ڈویژنز تک پہنچ سکتے ہیں۔
2008 میں پہلی ایچ ایس آر لائن کے افتتاح کے بعد سے ، کل ریل مسافروں کا حجم ہر سال 8.5 فیصد بڑھا ہےجس نے لوگوں کے سفر کے طریقوں کو بھی بدل دیا ہے۔
ایک وسیع ایچ ایس آر نیٹ ورک بہت سی تبدیلیوں کو ممکن بنایا۔ اب تک چین کے ہائی سپیڈ ریل نیٹ ورک کا مین چینل 35,300 کلو میٹر مکمل کر کے اپنے77.83فیصد حصے پر آپریشن شروع کر چکا ہے، تقریباً 7,025 کلومیٹر کا حصہ زیر تعمیر ہے، جو 15.49فیصد بنتا ہے۔
چین کےنیشنل ریلوے گروپ ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم ڈیپارٹمنٹ کی ترقیاتی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے شعبے کے مطابق تیز رفتار ریل نیٹ ورک نے چین کے ایسے 95 فیصد شہروں کا احاطہ کیا ہے، جن کی آبادی پانچ لاکھ یا اس کے زائد ہے ، اور اس کی وجہ سے باہمی روابط کو مؤثر طریقے سے فروغ ملا ہے۔ اس سال تین ہزار کلومیٹر سے زائد نئی ریلوے لائنوں کا کام شروع کیے جانے کی توقع ہے۔بہت سی نئی لائنیں جلد شروع کی جائیں گی، جس سے علاقائی معیشت اور معاشرے کی مربوط ترقی میں نئی تحریک پیدا ہو گی۔
چائنا اسٹیٹ ریلوے گروپ کمپنی لمیٹڈ کے مطابق، مشرقی چین کے صوبہ فوجیان میں فوژو، ژیامین اور ژانگژو شہروں کو ملانے والی چین کی پہلی سمندر پار کرنے والی تیز رفتار ریلوے کے متعدد حصوں نے بھی آزمائشی آپریشن شروع کر دیا ہے ۔ ستمبر 2017 میں شروع ہونے والی یہ ہائی اسپیڈ ریلوے ملک کی پہلی سمندر پار تیز رفتار ریل ہے جس کی زیادہ سے زیادہ ڈیزائن کردہ رفتار 350 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔متعدد بندرگاہی شہروں کے ساتھ 277.42 کلومیٹر تک پھیلی اور ساحلی صوبے میں تین سمندری خلیجوں کو عبور کرتی یہ لائن اس سال مکمل طور پر آپریشنل ہو جائے گی ۔

Comments (0)
Add Comment