پاکستان کی آزادی اور دو قومی نظریہ کے اسلامی پہلو

0


تحریر: محمد محسن اقبال
دو قومی نظریہ، جس نے پاکستان کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا، اس بات پر زور دیتا ہے کہ برصغیر کے مسلمان اور ہندو دو مختلف قومیں ہیں، جن کی اپنی اپنی رسم و رواج، مذہب اور روایات ہیں۔ یہ نظریہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے مطالبے کی بنیاد تھا، جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ دو قومی نظریہ کی جڑیں سمجھنے کے لیے اس کی اسلامی تعلیمات، قرآن، حدیث اور وسیع اسلامی نقطہ نظر سے تعلق کو جاننا ضروری ہے۔ یہ نظریہ محض ایک سیاسی موقف نہیں تھا؛ بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبی شناخت اور شعور سے گہرائی سے جڑا ہوا تھا۔
قرآن، جو کہ اسلام کی الہامی کتاب ہے، امت کے تصور پر زور دیتا ہے۔ امت کا قرآنی تصور جغرافیائی، نسلی، اور لسانی حدود سے ماورا ہے اور ایمان کی بنیاد پر مسلمانوں کو ایک اجتماعی شناخت میں متحد کرتا ہے۔ قرآن سورۃ الحجرات میں فرماتا ہے: "مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے” (49:10)۔ یہ آیت مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، جو ایک الگ مسلم ریاست کے مطالبے کا ایک اہم عنصر تھا۔ یہ خیال تھا کہ مسلم امت کو بیرونی اثرات سے بچایا جانا چاہیے جو ان کے مذہبی طرز عمل اور طرز زندگی پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں، جو کہ برطانوی راج اور ہندو اکثریت کے تحت تیزی سے مشکل ہوتا جا رہا تھا۔
مزید برآں، قرآن قوموں اور قبائل کی تنوع کو تسلیم کرتا ہے، جیسا کہ سورۃ الحجرات میں بیان کیا گیا ہے: "اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک سب سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو” (49:13)۔ یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسانی معاشروں میں تنوع کو تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن حقیقی برتری کا پیمانہ تقویٰ اور پرہیزگاری ہے، نہ کہ نسلی یا قومی شناخت۔ تاہم، برصغیر کے تناظر میں، جہاں مسلمان اقلیت میں تھے، دو قومی نظریہ ان کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ تھا، کیونکہ ان کا طرز زندگی ان کے ایمان سے جدا نہ تھا۔
حدیث، جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال ہیں، مسلمانوں کے اتحاد اور مسلم برادری کی انفرادیت کی اہمیت کو مزید تقویت دیتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کے رشتہ کو تمام دیگر تعلقات پر فوقیت دی۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن اپنی باہمی محبت، رحم اور شفقت میں ایک جسم کی طرح ہیں: اگر اس کا کوئی حصہ درد محسوس کرتا ہے، تو باقی جسم بے خوابی اور بخار کے ساتھ جواب دیتا ہے” (صحیح بخاری)۔ مسلم کمیونٹی کو ایک جسم کے طور پر تشبیہ دینا مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ ہندو قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور ہندو اکثریتی معاشرے میں ثقافتی انضمام کے خطرے کو برصغیر میں مسلم امت کے لیے ایک خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ مسلم لیگ کے رہنماؤں، خاص طور پر قائد اعظم محمد علی جناح، نے اس اتحاد اور انفرادیت کے احساس کو ایک الگ مسلم ریاست کے مطالبے کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا۔
اسلامی نقطہ نظر سے، دو قومی نظریہ بھی برصغیر میں مسلمانوں کے تاریخی تجربات پر مبنی تھا۔ خطے میں اسلام کی آمد، عرب تاجروں سے شروع ہو کر بعد میں مسلم حکمرانوں کی فتوحات نے ایک بھرپور اسلامی ورثہ قائم کیا جو صدیوں تک پروان چڑھا۔ مثال کے طور پر مغلیہ سلطنت محض ایک سیاسی وجود نہیں تھی بلکہ اسلامی ثقافت، علم اور فن تعمیر کا ایک مینار بھی تھی۔ برطانوی استعمار کے بعد مسلمانوں کی طاقت کے زوال نے مسلم دانشوروں کے درمیان غور و فکر اور از سر نو جائزہ لینے کے دور کو جنم دیا۔ ہندو احیاء پسند تحریکوں، جیسے آریہ سماج کے عروج نے، جو ہندو شناخت کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے، مسلمانوں کو مزید اجنبی بنا دیا، جو ہندوستان کے سماجی و سیاسی منظر نامے میں خود کو پسماندہ محسوس کرنے لگے۔
پاکستان کے لیے جدوجہد کو اس طرح سے خطے میں اسلامی خودمختاری کے تاریخی جدوجہد کا تسلسل سمجھا گیا۔ اسلامی علماء اور رہنماؤں نے دلیل دی کہ پاکستان کا قیام اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تھا کہ مسلمان اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں، بغیر اس خوف کے کہ وہ ہندو اکثریت کے زیر اثر آ جائیں گے۔ آل انڈیا مسلم لیگ، قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں، پاکستان کے مطالبے کو اس بنیاد پر پیش کیا کہ مسلمان محض اقلیت نہیں بلکہ اپنی الگ شناخت رکھنے والی ایک قوم ہیں۔ قائد اعظم کے 1940 میں لاہور میں مشہور تقریر، جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ "مسلمان کسی بھی تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں اور انہیں ایک الگ وطن کا مطالبہ کرنے کا پورا حق ہے”، اس جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔
پاکستان کا مطالبہ محض ایک سیاسی حکمت عملی نہیں تھا؛ بلکہ یہ قرآن و سنت کے مطابق انصاف، برابری اور قانون کی حکمرانی پر مبنی معاشرے کے قیام کے اسلامی فرض کا جواب تھا۔ اسلامی سیاسی فکر، جیسا کہ علامہ اقبال جیسے علماء نے بیان کیا، جو پاکستان کے روحانی بانی سمجھے جاتے ہیں، اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسی ریاست کی ضرورت ہے جہاں وہ آزادانہ طور پر اپنے مذہب پر عمل کر سکیں اور اپنی اقدار اور روایات کے مطابق ترقی کر سکیں۔ اقبال کے الگ مسلم ریاست کے تصور پر ان کی اسلامی فلسفے کی سمجھ اور جدید دنیا میں مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش کا گہرا اثر تھا۔
لہٰذا، پاکستان کا قیام ایک اسلامی آئیڈیل کی تکمیل کے طور پر دیکھا گیا – ایسی ریاست کا قیام جہاں مسلمان شریعت کو نافذ کر سکیں اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ملک کے قانونی اور تعلیمی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کی گئیں۔ 1949 کا قرارداد مقاصد ، جس نے پاکستان کے آئین کی بنیاد رکھی، نے اعلان کیا کہ اقتدار اعلیٰ صرف اللہ کے پاس ہے اور ریاست مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل بنانے کی کوشش کرے گی۔

تاہم، پاکستان کے اسلامی وژن کو حقیقت بنانے کی کوشش ایک پیچیدہ اور چیلنجوں سے بھرپور رہی ہے۔ مذہبی آئیڈیالز اور عملی حکمرانی کے درمیان تعامل نے ریاست کے امور میں اسلام کے کردار پر بحثوں کو جنم دیا ہے۔ ان چیلنجوں کے باوجود، دو قومی نظریہ پاکستان کی قومی شناخت کا ایک مرکزی ستون رہا ہے۔ یہ خاص طور پر بحران کے اوقات یا جب ریاست کی شناخت کو خطرہ محسوس کیا جاتا ہے تو سیاسی اور مذہبی گفتگو میں تاحال اہمیت رکھتا ہے۔
آخر میں، دو قومی نظریہ، جیسا کہ پاکستان کی آزادی کی تحریک میں بیان کیا گیا تھا، اسلامی تعلیمات، قرآن، اور حدیث میں گہرائی سے جڑا ہوا تھا۔ یہ محض ایک سیاسی دلیل نہیں تھی بلکہ بہت سے مسلمانوں کے لیے ایک مذہبی فرض تھا جو یہ مانتے تھے کہ ان کا ایمان، ثقافت، اور طرز زندگی ایک الگ وطن کے قیام سے جدا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان کا قیام برصغیر میں مسلم امت کے تحفظ اور اسلامی اصولوں پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا گیا۔ اگرچہ پاکستان کا سفر پیچیدہ رہا ہے، لیکن ملک کے قیام میں دو قومی نظریہ کا بنیادی کردار اس کی قومی شعور کا ایک اہم حصہ ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.