ارضیاتی آفات سے بچاؤ کی چینی ٹیکنالوجی نے قراقرم ہائی وے کے محفوظ آپریشن کو یقینی بنایا
لان ژو(شِنہوا)لان ژو یونیورسٹی کی ارضیاتی آفات کی تحقیقاتی ٹیم کی تیار کردہ ٹیکنالوجی کو اب پورے قراقرم ہائی وے پر بروئے کار لایا جا چکاہے جو چین-پاکستان ہائی وے کے محفوظ آپریشن کو یقینی بنانے کے لئے ایک اہم سائنسی بنیاد فراہم کرتی ہے اور چین-پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر میں بھی نمایاں معاونت پیش کرتی ہے۔
یہ ہائی وے جسے چین-پاکستان دوستی ہائی وے بھی کہا جاتا ہے، 1960 کی دہائی میں چین کی مالی معاونت سے تعمیر ہوا اور پاکستان کے شمالی خطے کے لئے ایک اہم اقتصادی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
1979 میں مکمل ہونے والا یہ ہائی وے چین کے سنکیانگ ویغور خودمختار خطے اور پاکستان کے گلگت بلتستان خطے کو قراقرم پہاڑوں کے پار ملاتا ہے۔ دنیا کی بلند ترین پکی سڑکوں میں سے ایک ہونے کے ناطے، یہ ہائی وے سڑک سازی کی انسانی تاریخ میں ایک معجزہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ ہائی وے قراقرم پہاڑوں سمیت کئی اہم پہاڑی سلسلوں سے گزرتی ہے جہاں زمین کی ساخت پیچیدہ اور خطرناک ہے۔ ہائی وے کے کنارے بلند پہاڑ کھڑے ہیں اور لینڈ سلائیڈنگ اور ملبے کے بہاؤ جیسے قدرتی حادثات اکثر رونما ہوتے ہیں۔ 2022 میں قراقرم ہائی وے کے ایک حصے کو مون سون بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب نے متاثر کیا تھا۔
لان ژو یونیورسٹی میں ارضیاتی آفات کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ اور پروفیسر مینگ شنگ من نے کہا کہ 2017 سے ان کی ٹیم نے کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد اور انٹرنیشنل سنٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیویلپمنٹ کے ساتھ مل کر چین-پاکستان اقتصادی راہداری میں ارضیاتی آفات کے خطرات کا جائزہ لیا۔ 4 سال سے زائد کی کوششوں کے بعد قراقرم ہائی وے کے زمین کے ماحولیاتی جائزے اور ممکنہ لینڈ سلائیڈز کی نشاندہی مکمل ہو چکی ہے اور لینڈ سلائیڈ اور ملبے کے بہاؤ کے خطرات کا منظم طور پر تجزیہ کیا گیا ہے۔
منصوبے پر عملدرآمد کے دوران ٹیم نے 2 مشترکہ سائنسی فیلڈ تحقیقات کیں اور پورے قراقرم ہائی وے کے کنارے لینڈ سلائیڈز، ملبے کے بہاؤ، تودے گرنے اور بند جھیلوں جیسی متعدد ارضیاتی آفات اور ڈیزاسٹر چینز کی سائنسی تحقیقات مکمل کیں۔
لان ژو یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور تحقیقاتی ٹیم کے رکن ژانگ یی نے کہا کہ سائنسی مشن بہت مشکل تھا، ہم اور پاکستانی ہم منصب شدید موسم جیسے بارش اور برفانی حالات سے دوچار ہوئے لیکن آخرکار ہم نے سائنسی کام کامیابی سے مکمل کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس دوران انہوں نے پاکستانی عوام کے جوش و خروش اور چینی اور پاکستانی عوام کے درمیان مضبوط دوستی کا بھی مشاہدہ کیا۔
مینگ کے مطابق اس منصوبے کے نفاذ نے چین اور پاکستان کے درمیان ارضیاتی آفات کے میدان میں علمی تبادلے اور تعاون کو فروغ دیا اور پاکستان میں ارضیاتی شعبے اور اعلیٰ تعلیم کی ترقی کے لئے ٹیلنٹ بھی تیار کئے۔ اس منصوبے کی مدد سے لان ژو یونیورسٹی نے 2 پاکستانی ڈاکٹریٹ طلبہ کو تربیت دی اور گانسو صوبائی بین الاقوامی تعاون کے منصوبے سے فنڈز حاصل کئے۔
مینگ نے مزید کہا کہ مستقبل میں وہ پاکستانی تحقیقی اداروں کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے تاکہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری میں موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانی سرگرمیوں کے اثرات کے تحت ارضیاتی آفات کے خطرات کا تفصیلی جائزہ لیا جا سکے۔ وہ بڑے پیمانے پر آفات کم کرنے کی ٹیکنالوجیز میں اخترع اور شہری کمیونٹیز میں آفات سے مزاحمت کو بہتر بنانے کی تحقیق کریں گے تاکہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری کی ترقی کے لئے سائنسی ضمانتیں فراہم کی جا سکیں۔