یورپ دوغلے پن کا شکار ہے، چین کا موقف مستحکم ہے، چینی میڈیا
حال ہی میں، فرانسیسی صدر کے مشیر برائے خارجہ امور ایمانوئل بون، سویڈن کی وزیر خارجہ ماریا مالمر سٹینر گارڈ، کینیڈا کی وزیر خارجہ انیتا آنند، اور سپین کے وزیر خارجہ خو سے مانوئل الباریس بویانو سمیت دیگر یورپی رہنماؤں نے یکے بعد دیگرے بیجنگ کا دورہ کیا جو واضح طور پر تعاون کے اشارے ہیں۔ دوسری طرف، نیدرلینڈز نے سامان کی فراہمی کے ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اے این ایس سیمی کنڈکٹر کے آپریشنز کو منجمد کر دیا، جو بنیادی طور پر بیرونی قوتوں کے ساتھ مل کر چینی کمپنیوں کو دبانے کی کوشش ہے۔جبکہ چین کے معاملات میں دخل اندازی کی کوشش کرنے والے جرمن وزیر خارجہ جان واڈیفول کا چین کا دورہ بھی منسوخ ہوا ہے ، جو یورپ کے متنازعہ اور منقسم رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے برعکس، چین باہمی احترام اور باہمی تعاون کے اصول پر قائم ہے، جو دوطرفہ تعلقات کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ حال ہی میں ملائیشیا میں چین-امریکا اقتصادی اور تجارتی مذاکرات میں مثبت پیشرفت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بات چیت اور تعاون ہی جیت کا راستہ ہے۔ یورپ کو نظریاتی تعصب کو ترک کرتے ہوئے چین کے ساتھ تعاون کے بڑے پیمانے پر فوائد کو تسلیم کرنا چاہیے، اور معقول اور عملی رویہ اپنا کر تعاون کی بنیاد رکھنی چاہیے تاکہ ترقی کے مواقع سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ایک طویل عرصے سے، مغربی ممالک اپنی بات منوانے کیلئے طاقت پر انحصار کرتے ہوئے بین الاقوامی میدان میں دوہرے معیار کا کھیل کھیلتے چلتے آرہے ہیں۔ چین کے ساتھ تعلقات میں، وہ ایک طرف تو فریقین کے تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، لیکن دوسری طرف وہ سرد جنگ اور بالادستی کی سوچ سے چین کو دبانے اور بدنام کرنے کے لیے کام کرتے ہیں، انسانی حقوق کے معاملات پر ایک استاد کی طرح اپنی رائے مسلط کرتے ہیں، اور تائیوان جیسےچین کے مرکزی مسائل پر بار بار چین کی” ریڈ لائن” کو پار کرتے ہیں۔ مغرب "ہر چیز چاہیے” والا رویہ اپناتے ہوئے، اپنے مفادات کی بنیاد پر معیارات اور اخلاقی بیانات کو بدل دیتا ہے، یہ بین الاقوامی امور میں مغربی ممالک کا ایک رائج طریقہ کار بن چکا ہے، جس کی چین اور ترقی پذیر ممالک کی ایک بڑی تعداد نے سخت مخالفت اور مزاحمت کی ہے۔ مغرب کا یہ ڈبل سٹینڈرڈ کا مظاہرہ مختلف شعبوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ماحول اور آب و ہوا کے شعبے کو ہی لیں: جب چین کی صنعتی ترقی میں اضافہ ہوا اور اخراج کی مجموعی مقدار نسبتاً زیادہ تھی، تو کچھ مغربی سیاستدانوں اور میڈیا نے چین کی ترقی اور کاربن کے فی کس اخراج کو نظر انداز کرتے ہوئے چین پر "آلودگی پھیلانے والا ملک” اور "موسمیاتی تبدیلی کا مجرم” ہونے کا لیبل لگایا، نیز چین کی توانائی کی بچت، اخراج میں کمی، اور ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں اور نمایاں کامیابیوں کو بھی نظر انداز کیا۔ تاہم، جب چین نے گرین ٹرانزیشن کو آگے بڑھایا، نئی توانائی کی صنعتوں کو زور شور سے ترقی دی، اور شمسی توانائی، ہوا سے توانائی، اور نئی توانائی گاڑیوں جیسے شعبوں میں عالمی سطح پر قیادت حاصل کی، تو مغرب کا لہجہ یکسر تبدیل ہو گیا۔ انہوں نے ماحولیاتی شراکت کے بارے میں بات کرنا بند کر دی، اور اس کے بجائے چین پر "ضرورت سے زیادہ سبسڈی” اور "اوور پروڈکشن” کا الزام لگا کر یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ چین کی نئی توانائی کی صنعتیں ان کی معیشتوں اور روزگار کے لیے "خطرہ” ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے تجارتی رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور چین کی جدید صنعتوں کی ترقی کو دبانے کی کوشش کی۔ کاربن کے "اخراج پر تنقید” سے لے کر "تبدیلی کے خوف” تک، اس کا مقصد عالمی آب و ہوا کے بارے میں فکر مندی نہیں، بلکہ یہ خوف ہے کہ نئی توانائی کے میدان میں چین کے عروج نے ان کے روایتی صنعتی فوائد اور تکنیکی بالادستی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔یہی ڈبل سٹینڈرڈ منطق مغرب کی چائنا پالیسی کے کئی پہلوؤں میں بھی موجود ہے۔ معیشت اور تجارت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں، جب چینی صنعتیں مڈل اینڈ لوئر اینڈ مینوفیکچرنگ پر مرکوز تھیں، تو مغرب سستے اور اعلیٰ معیار کے چینی سامان اور خدمات سے لطف اندوز ہو رہا تھا، اور "آزاد تجارت” اور "عالمی تقسیم کار” کی تعریف کر رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی چین نے صنعتی ترقی کرتے ہوئے اپنے دائرہ کار کو وسیع کیا اور فائیو جی، مصنوعی ذہانت، ہائی اینڈ مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں پیشرفت کی، مغرب نے فوری طور پر اپنا چہرہ بدل لیا، چین پر "ٹیکنالوجی چوری” کرنے اور "ٹیکنالوجی کی جبری منتقلی” کا الزام لگایا۔ "قومی سلامتی” کے تصور کا غلط استعمال کرکے چینی ہائی ٹیک کمپنیوں کو بلا جواز دبایا، ٹیکنالوجی کو روکنے اور سپلائی چین میں "ڈی کپلنگ” جیسے اقدامات نافذ کیے۔ ان کے منہ نکلنے والی "منصفانہ مقابلہ” کی باتیں صرف اپنی برتری کی اجازت دیتی ہیں، دوسروں کی ترقی کی نہیں، یہی تو "جنگل کا قانون” ہے۔عالمی حکمرانی اور اصولوں کے میدان میں، مغرب نے طویل عرصے سے بین الاقوامی اصولوں کے تعین پر قبضہ کر رکھا ہے، اور وہ بار بار اپنے "اصولوں پر مبنی بین الاقوامی نظام” کی بات کرتے ہیں۔ لیکن جب چین نے عالمی حکمرانی میں فعال طور پر حصہ لیا، مشاورت، مشترکہ تعمیر اور مشترکہ اشتراک کے عالمی حکمرانی کے نقطہ نظر کی وکالت کی، "بیلٹ اینڈ روڈ” تعاون کو آگے بڑھایا، اور وسیع پیمانے مثبت ردعمل اور حمایت حاصل کی تو مغرب نے چین پر "بین الاقوامی قواعد کو توڑنے”، "سیاسی و معاشی ماڈل برآمد کرنے”، اور "قرضے کے جال پیدا کرنے ” کا الزام لگایا۔ ان کے "اصول” درحقیقت ان کے اپنے مفادات کو برقرار رکھنے کے آلے ہیں: اگر فٹ بیٹھتے ہیں تو استعمال کرتے ہیں، اگر نہیں تو انہیں مسترد کر دیتے ہیں۔ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ مغرب کا یہ گہرا دُہرا معیار انکی اپنی بالادستی کی حیثیت کو برقرار رکھنے کی بے چینی کو ظاہر کرتا ہے ۔ جب وہ منصفانہ مقابلے میں مکمل برتری برقرار نہیں رکھ سکتے، تو وہ "آزادی”، "انصاف”، اور "اصولوں” کے بہانے کو چھوڑ دیتے ہیں، اور ہر طریقہ استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ بدنام کرنا، تکنیکی ناکہ بندی، معاشی دباؤ، اور یہاں تک کہ فوجی دھمکیاں، تاکہ پیچھے کرنے والوں کو روکا جا سکے۔ ان کا امور کا جائزہ لینے کا معیار کبھی بھی حقائق، انصاف، یا بین الاقوامی برادری کے مشترکہ مفادات پر مبنی نہیں ہوتا، بلکہ خالصتاً مفاد پرستانہ حساب کتاب اور بالادستی کی منطق پر مبنی ہوتا ہے۔تاریخ اور عمل نے ثابت کیا ہے اور ثابت کرتے رہیں گے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور نشاۃ ثانیہ دوسروں کی "منظوری” پر انحصار نہیں کر سکتی، یا ایسے "معیارات” کی پیروی نہیں کر سکتی جو دوسروں نے مقرر کیے ہیں اور جو کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتے ہیں۔ چین اپنے انتخاب کے صحیح راستے پر ثابت قدمی سے چلتا رہے گا۔ بین الاقوامی برادری بھی تیزی سے اس بات کو دیکھ رہی ہے کہ مغرب کے ڈبل سٹینڈرڈ کے کھیل اور ان کا منافقانہ چہرہ عالمی کثیرالجہتی کے بہاؤ کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ ایک زیادہ منصفانہ اور معقول نیا بین الاقوامی نظام اس بالادستی کی منطق کے خلاف مزاحمت کے ساتھ تشکیل پائے گا۔