چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات باہمی فائدے اورمشترکہ جیت پر مبنی ہیں، چینی میڈیا
بیجنگ :چین اور امریکہ کی اقتصادی اور تجارتی ٹیموں نے ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں مشاورت کا ایک نیا دور منعقد کیا۔ فریقین نے چین کی میری ٹائم لاجسٹکس اور جہاز سازی کی صنعتوں پر امریکی 301 کے اقدامات، ٹیرف کی معطلی کی مدت، فینٹینائل کا مسئلہ، زرعی مصنوعات کی تجارت اور برآمدی کنٹرول جیسے مسائل پر واضح، تفصیلی اور تعمیری تبادلہ خیال کیا اور اپنے متعلقہ خدشات کو دور کرنے کے میکانزم پر بنیادی اتفاق رائےحاصل کیا۔ یہ پیش رفت حالیہ کشیدہ چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے لیے ایک مثبت اشارہ دیتی ہے اورفریقین کو اختلافات کو بہتر انداز میں حل کر نے اور تعاون بڑھانے کا ایک نیا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات باہمی فائدے اورمشترکہ جیت پر مبنی ہیں۔ صنعتی و سپلائی چین اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں دونوں ممالک کا گہرا انضمام اس حقیقت کا اظہار ہے کہ "تعاون سے فائدے جب کہ تنازع سے نقصان” صرف بات نہیں بلکہ ایک حقیقی منطق ہے۔ امریکی کمپنیاں چین میں منعقدہ نمائشوں اور سرمایہ کاری کے لئے پرجوش رہی ہیں ۔ ہر بار چین-امریکہ مشاورت کی پیش رفت کی بدولت بین الاقوامی اسٹاک مارکیٹوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور عالمی شپنگ اور لاجسٹکس سیکٹر میں بھی ایک موقع پر جہازوں کی شدید طلب دیکھی گئی۔ یہ تمام اشارے یہ بتاتے ہیں کہ چین اور امریکہ کے درمیان تعاون نہ صرف ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاتا ہے بلکہ عالمی منڈی کے مجموعی استحکام اور ترقی کو بھی متاثر کرتا ہے۔اس سال چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی مشاورت میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔ ستمبر میں میڈرڈ مذاکرات کے بعد امریکہ نہ صرف فریقین کےدرمیان اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہا، بلکہ اس نے چین پر پابندیوں کے اقدامات کو بڑھانا جاری رکھا ۔امریکہ کی جانب سے "پینی ٹریشن رولز” کے ذریعے کنٹرول کے دائرہ کار کو بڑھایا گیا اور چین کی سمندری لاجسٹکس اور جہاز سازی کی صنعتوں پر 301 اقدامات کو آگے بڑھانے پر اصرار بھی کیا گیا ۔ یہ یکطرفہ اقدامات نہ صرف چین کے جائز حقوق و مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ مشاورتی ماحول کو بھی تباہ کرتے ہیں ۔ بین الاقوامی رائے عامہ نے دیکھا ہے کہ اس سال چین امریکہ مشاورت کے ہر دور کے بعد، امریکہ کی جانب سے بار بار کی جانے والی تبدیلیوں کے باعث اتفاق رائے کو نافذ کرنا مشکل رہا ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ امریکہ میں کچھ لوگ اب بھی وہی پرانی سوچ رکھتے ہیں کہ ” زیادہ دباؤ منافع لا سکتا ہے” اور وہ ترقیاتی حقوق اور مفادات کے تحفظ کےلئے چین کے پختہ عزم اور مکمل صلاحیت کو صحیح معنوں میں سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔مشاورت کے موجودہ دور نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ جب تک چین اور امریکہ دونوں سربراہان مملکت کی اسٹریٹجک رہنمائی اور طے پانے والے اتفاق رائے پر مکمل طور پر عمل درآمد کرتے ہیں، فریقین دوطرفہ تعلقات میں مسائل سے درست طریقے سے نمٹ سکتے ہیں اور جیت جیت کے نتائج کا حصول ممکن ہے۔ چین نے ہمیشہ اقتصادی اور تجارتی مشاورت میں طے پانے والے اتفاق رائے پر عمل درآمد کیا ہے اور سخت محنت سے حاصل کیے گئے چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی تعاون کی قدر کی ہے۔ امریکہ کو بھی چاہیے کہ وہ خیالی برتری پیدا کرنے اور "تجارتی غنڈہ گردی” جیسے غیر معقول طرز عمل کو روکے اور ٹھوس اقدامات کے ساتھ عالمی برادری کی عمومی توقعات کا جواب دے۔جنیوا سے کوالالمپور تک، چین اور امریکہ کے سربراہان مملکت کی رہنمائی میں دونوں ممالک کی اقتصادی اور تجارتی ٹیموں کے درمیان قائم کردہ مواصلاتی میکانزم نہ صرف موجودہ اختلافات کو حل کرنے کا ایک پلیٹ فارم ہے، بلکہ تعاون کو وسعت دینے اور غلط فہمیوں کو پیدا ہونے سے روکنے کی ایک اہم ضمانت بھی ہے۔ جیسا کہ چینی مذاکراتی نمائندے نے مشاورت کے موجودہ دور کے بعد کہا کہ چین نےمضبوطی سے اپنے مفادات کا دفاع کیا ہے۔ چین اور امریکہ کی اقتصادی اور تجارتی ٹیموں نے باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر بات چیت کی ہے۔ اگلے مرحلے کی کلید اتفاق رائے کو عمل میں تبدیل کرنا، اخلاص کے ساتھ وعدوں کی پاسداری کرنا، باہمی اعتماد سازی کو جاری رکھنا اور دوطرفہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مزید بلندی پر لے جانے کی کوشش کرنا ہے۔کوالالمپور اختتام نہیں بلکہ ایک نیا نقطہ آغاز ہے۔ کیا چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات صحت مند اور مستحکم راستے پر واپس آسکتے ہیں ؟یہ فریقین کی دانشمندی اور اخلاص کا امتحان ہوگا۔ جیسا کہ چینی صدر شی جن پھنگ نے اس سال ستمبر میں امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی ٹیلیفونک بات چیت میں کہا تھا کہ چین اور امریکہ ایک دوسرے کو مکمل طور پر کامیاب بنا سکتے ہیں اور مل کر ترقی کر سکتے ہیں۔ اس وژن کی تکمیل کا درست راستہ یہ ہے کہ "فریقین ایک ہی سمت میں مل کر کوشش کریں اور باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور مشترکہ کامیابیوں پر مبنی تعاون کریں۔”اس وقت عالمی معیشت کو ایک "نازک لمحہ” کا سامنا ہے۔ سپلائی چین کی ہمواری، افراط زر میں کمی اور مارکیٹ کی توقعات میں استحکام وغیرہ کے لئے چین اور امریکہ جیسی دو بڑی معیشتوں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ امریکہ چین کے ساتھ مل کر دونوں سربراہان مملکت کی سٹریٹیجک رہنمائی میں اتفاق رائے کی پاسداری کرتے ہوئے اختلافات کو دور کرتے ہوئے تعاون کو فروغ د ے گا تاکہ نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کے لیے مزید فوائد پہنچائے جائیں بلکہ افراتفری کی شکار اس دنیا میں یقین اور مثبت توانائی بھی فراہم کی جا سکے ۔