چین کا چھوٹے سیارچے سے ٹکراؤ کا مشن اور عالمی ذمہ داری کا ادراک
بیجنگ : چین کے قمری تحقیقی منصوبے کے سربراہ وو وے رن نے تیسری عالمی کانفرنس برائے وسیع خلائی تحقیق میں اعلان کیا کہ چین ایک چھوٹے سیارچے سے متحرک ٹکراؤ کا آزمائشی مشن شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ مشن "ہمراہ پرواز – ٹکراؤ – ہمراہ پرواز” کے جدید طریقہ کار کے ذریعے چھوٹے سیارچے کے دفاعی منصوبے کے عملی امکانات کی تصدیق کی کوشش کرے گا۔ اس خبر کے سامنے آنے پر فوراً عالمی برادری میں اسے نمایاں توجہ ملی ہے۔ یہ نہ صرف چین کے خلائی منصوبے میں ایک اہم پیش رفت ہے، بلکہ یہ انسانیت کی مشترکہ سلامتی کے لیے چین کی جانب سے ایک اہم کاوش اور خدمت بھی ہے۔اگرچہ زمین سے چھوٹے سیارچوں کے ٹکرانے کا امکان نہایت کم ہے، لیکن اس کے اثرات مہلک ہوسکتے ہیں۔ تاریخ کا جائزہ لیا جائے ،خلیج میکسیکو میں ڈائناسورز کے خاتمے کا باعث بننے والے ٹکراؤ سے لے کر 1908 میں تونگسکا ایکسپلوژن تک، اور 2013 میں چلیابنسک واقعے تک، ہمارے سیارے کے قریب موجود چھوٹے سیارچے ہمیشہ بنی نوع انسان کے لئے ایک مشترکہ خطرہ رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق، انسانی تحقیق تاحال تقریباً 36,000 چھوٹے سیارچے دریافت کر چکی ہے، جن میں سے تقریباً ایک دسواں حصہ ایسا ہے، جن کا قطر 140 میٹر سے زیادہ ہے اور جو ممکنہ ٹکراؤ کا خطرہ رکھتے ہیں۔ اگر ایک کلومیٹر سے زیادہ قطر والا کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو یہ عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں اور حیاتیاتی معدومیت جیسے بحران کو جنم دے گا۔ اس سے منتشر شدہ توانائی ایک درمیانے درجے کے ملک کو تباہ کرنے کے لئے کافی ثابت ہوگی۔
چین کا یہ مشن اسی طرح کے حقیقت پسندانہ پس منظر میں ایک ذمہ دار اقدام کے طور پر شروع کیا گیا ہے۔تکنیکی لحاظ سے دیکھا جائے، اس مشن کا چیلنج انتہائی بڑا ہے۔ ایک کروڑ کلومیٹر کے فاصلے کا کیا مطلب ہے؟ یہ زمین سے چاند تک کے فاصلے کا 26 گنا ہے۔ اس پیمانے پر درست ٹکراؤ کا حصول ، جیسے کہ بحر الکاہل کے اوپر "ایک گولی سے دوسری پرواز کرتی گولی کو نشانہ بنانا” ہے۔ اس مشن پر عمل درآمد کے لیے آزادانہ نیوی گیشن، اعلیٰ درستگی کا کنٹرول، حقیقی وقت میں فیصلہ سازی اور ٹکراؤ کے اثرات کی جانچ جیسی متعدد جدید ٹیکنالوجیز پر قابو پانا ضروری ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ٹکراؤ کی شدت انتہائی درست ہونی چاہیے۔ اگر یہ بہت ہلکی ہوئی تو مدار میں انحراف نہیں ہو گا، اور اگر یہ بہت زیادہ ہوئی تو یہ سیارچے کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا سبب بن سکتی ہے، جو مزید بے قابو خطرات کو جنم دے سکتی ہے۔
چینی سائنسدان سائنسی اور سنجیدہ رویے کے ساتھ پوری انسانیت کے لیے ایک قابل اعتماد "خلائی ڈھال” تخلیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔قابل تحسین بات یہ ہے کہ چین نے اس مشن میں بین الاقوامی تعاون کے اعلیٰ جذبےکا مظاہرہ کیا ہے۔ چین نے واضح کیا ہے کہ وہ عالمی شراکت داروں کو تعاون کی تجویز پیش کرے گا، مشترکہ نگرانی، ڈیٹا کےاشتراک اورپے لوڈ ماؤنٹنگ سمیت متعدد پہلوؤں کے تعاون کو فروغ دے گا۔ یہ کچھ ممالک کے اس طرز عمل کے برعکس ہے جو خلا کو "ذاتی اسٹریٹجک ڈومین ” کے طور پر دیکھتے ہیں، ٹیکنالوجی کی اجارہ داری قائم کرتے ہیں اور یکطرفہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ چین کا حمایت یافتہ خلا کی حکمرانی کا نظریہ "انسانیت کے ہم نصیب معاشرے” کی بنیاد پر مبنی ہے، یعنی زمین سب کے لیے ایک مشترکہ گھر ہے، اس کا تحفظ نہ صرف ہر ملک کی ذمہ داری ہے بلکہ اس کے لیے عالمی برادری کی مشترکہ کوششوں کی بھی ضرورت ہے۔دوراندیشی کے پہلو سے، چھوٹے سیارچوں کا دفاعی مشن صرف حفاظت سے متعلق نہیں ہے، بلکہ مستقبل کے وسائل کے استعمال اور گہری خلائی تحقیق کی صلاحیت کی تیاری سے بھی وابستہ ہے۔ چھوٹے سیارچوں میں لوہا، نکل، کوبالٹ بلکہ ریئر ارتھ جیسے وسائل موجود ہیں، جو انتہائی قیمتی ہیں۔ ٹکراؤ منصوبوں سے حاصل کردہ معلومات اور ٹیکنالوجی انسانی مستقبل کے لیے خلا تک گہری رسائی اور خلائی وسائل کے پرامن استعمال کے لیے بنیاد فراہم کرے گی۔چین کی خلائی ترقی کے سفر پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ چین کا یہ قدم واضح اور پرعزم ہے۔ ’
’تھیان ون” کے ذریعے مریخ کی کھوج سے لے کر "چھانگ عہ ” کے ذریعے قمری تحقیق تک، "تھیان گونگ” خلائی اسٹیشن سے لے کر اس سال قریب سیارچوں سے نمونے لیکر واپسی کے مشن تک، اور پھر طے شدہ سیارچوں سے متحرک ٹکراؤ کی تصدیق تک، چین وسیع خلا کے حوالے سے ایک جامع حکمت عملی نظام کی تعمیر کر رہا ہے جو تحقیق، دفاع، اور استعمال کو شامل کرتا ہے۔ یہ صرف ٹیکنالوجی کی ترقی نہیں ہے، بلکہ قومی حکمت عملی کے افق کی بلندی بھی ہے۔ چین نہ صرف خلا کی کھوج کرنا چاہتا ہے، بلکہ خلا کا تحفظ بھی چاہتا ہے۔چین نہ صرف وسائل کا استعمال کرنا چاہتا ہے، بلکہ مستقبل کا بھی اشتراک کرنا چاہتا ہے۔چین کا خلائی نصب العین کبھی بھی محض کسی ایک ملک کے ساتھ مقابلے کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ تعاون اور اشتراک کی بنیاد پر انسانی وجود کی گنجائش اور مجموعی تہذیبی لچک کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ چین اپنے عملی اقدامات سے دنیا کو بتا رہا ہے کہ حقیقی فضائی طاقت کا انحصار ہتھیاروں کی تعداد پر نہیں ہے بلکہ اس بات میں ہے کہ کیا وہ پوری انسانیت کے لیے اس کائنات میں اپنے گھر کی حفاظت کر سکتا ہے۔ یہ صحیح معنوں میں "انسانیت کے ہم نصیب معاشرے” کی سب سے دلکش تشریح ہے –ستاروں اور سمندر کے درمیان، چین اپنی ذمہ داریاں اور فرائض نبھانے کی تاریخ رقم کر رہا ہے۔