کوئٹہ: پسند کی شادی پر جوڑے کو قتل کرنے والے مرکزی ملزم سمیت 20 افراد گرفتار

0


کوئٹہ:بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواح میں پسند کی شادی پر جوڑے کو قتل کرنے والے مرکزی ملزم بشیر احمد سمیت 20 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، گرفتار ملزمان میں ساتکزئی قبیلے کے سربراہ شیرباز ساتکزئی، ان کے 4 بھائی اور 2 محافظ بھی شامل ہیں، واقعے کا مقدمہ ہنہ اوڑک تھانے میں ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کرلیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کوئٹہ کے نواحی علاقے ڈیگاری میں عیدالاضحیٰ سے 3 روز قبل قتل کیے گئے جوڑے بانو ستک زئی اور احسان اللہ سمالانی کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 20 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق گرفتار ملزمان میں مرکزی ملزم بشیر احمد اور ساتکزئی قبیلے کے سربراہ سردار شیر باز ساتکزئی، ان کے 4 بھائی اور 2 محافظ بھی شامل ہیں، ملزمان کو آج جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
کوئٹہ پولیس نے کیس کو مزید تحقیقات کے لیے سیریس کرائمز انویسٹیگیشن ونگ کے حوالے کردیا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی ہے وزیراعلیٰ بلوچستان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ ’تمام ملوث ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا، ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہے‘۔
پولیس کے مطابق واقعے کا مقدمہ تھانہ ہنہ اوڑک میں ایس ایچ او نوید اختر کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، ایف آئی آر کے مطابق واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں خاتون اور مرد کو فائرنگ کرکے قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ایس ایچ او نوید اختر نے بتایا کہ وہ پولیس نفری کے ہمراہ جائے وقوعہ سنجیدی کے علاقے ڈیگاری پہنچے جہاں ابتدائی معلومات سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ عیدالاضحیٰ سے 3 روز قبل پیش آیا تھا۔
مدعی کے مطابق بانو بی بی اور احسان اللہ کو کاروکاری کے الزام میں قتل کیا گیا، واقعے میں مبینہ طور پر شاہ وزیر، جلال، ٹکری منیر، بختیار، ملک امیر، عجب خان، جان محمد، بشیر احمد اور دیگر 15 نامعلوم افراد شامل تھے۔
مدعی نے الزام لگایا کہ ان افراد نے خاتون اور مرد کو سردار شیر باز خان کے سامنے پیش کیا جہاں سردار نے کاروکاری کا فیصلہ سنایا اور دونوں کو قتل کرنے کا حکم دیا، بعدازاں انہیں گاڑیوں میں لے جا کر کوئٹہ کے مضافاتی علاقے ڈیگاری میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔
قتل کی ویڈیو واقعے کے دوران بنائی گئی اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی، جس سے عوام میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا، پولیس نے انسداد دہشت گردی ایکٹ، تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 302 اور دیگر دفعات کے تحت واقعے کا مقدمہ درج کرلیا ہے، مزید تحقیقات جاری ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کی ہدایت پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جس کے بعد لیویز اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ایک مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا تھا۔
حکام کے مطابق ’یہ مقدمہ بلوچستان حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت درج کیا گیا کیونکہ علاقے کے کسی بھی فرد، بشمول مقتولین کے رشتہ داروں یا مقامی لوگوں نے لیویز یا سی ٹی ڈی کو کوئی درخواست نہیں دی‘۔
اطلاعات کے مطابق مقتولین احسان سمالانی اور بانو ستک زئی نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی جس پر ان کے خاندان ناراض تھے، معاملہ علاقے کے ’بزرگوں‘ کے پاس لے جایا گیا جنہوں نے موت کی سزا سنائی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جوڑے کو عید سے قبل ایک دیہی علاقے ڈگری میں کھانے کی دعوت پر بلایا گیا اور بعد میں انہیں ایک ویران مقام پر لے جایا گیا جہاں انہیں بزرگوں کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا۔

قتل سے قبل مقتولہ نے قاتلوں سے براہوی زبان میں کہا کہ ’تمہیں مجھے گولی مارنے کی اجازت ہے، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں‘۔

اس نے یہ بھی کہا کہ اسے 7 قدم چلنے دیا جائے، جس کے بعد اسے مبینہ طور پر اس کے بھائی نے 3 گولیاں مار کر قتل کیا اور پھر اس کے شوہر کو بھی قتل کر دیا گیا، لاشیں تاحال برآمد نہیں ہو سکیں جس سے تفتیش مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.