بھارت کو چینی دانش سے علاقائی تحفظ امن کا سبق سیکھنا چاہیے، چینی وزارت خارجہ
بیجنگ: چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے یومیہ پریس کانفرنس کی میزبانی کی ۔ کانفرنس کے دوران بھارتی نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے نامہ نگار نے پوچھا کہ بھارتی فوج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ بھارت-پاکستان تنازع میں چین نے پاکستان کو ہر طرح کی حمایت فراہم کی ہے اور انہوں نے چین پر "چھتیس حکمتوں ” میں سے "کسی کی تلوار سے قتل کرنے” کی حکمت عملی استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین پاکستان کی ہر طرح کی مدد سے بھارت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ چین کا اس پر کیا ردعمل ہے؟
ترجمان ماؤ ننگ کا کہنا تھا کہ: "چین اور پاکستان روایتی دوستانہ پڑوسی ہیں، اور دفاعی تعاون دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات کا حصہ ہے جو کسی تیسرے فریق کے خلاف نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں اور چین کے لیے بھی اہم ہمسایہ ممالک ہیں۔ چین ، بھارت-پاکستان تعلقات کی صورتحال پر گہری نظر رکھتا ہے اور علاقائی امن و استحکام کے لیے مثبت طور پر مصالحت اور مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔ ہم بھارت اور پاکستان کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ وہ بات چیت کے ذریعے اختلافات کو سلجھائیں اور بنیادی حل تلاش کریں۔ چین اس سلسلے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔”
یہ بیان اگرچہ سرکاری انداز میں دیا گیا، لیکن بالکل واضح اور کافی ہے۔ اگر بھارت واقعی سمجھدار ہے، تو اسے ایک طرف اپنی فتح کا ڈھنڈورا پیٹنے اور دوسری طرف خود کو مظلوم ظاہر کرنے اور دوسروں پر الزامات عائد کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔یہ لازمی نہیں کہ گنے کے دونوں سرے ہی میٹھے ہوں۔ بھارت کو چینی دانش کی "چھتیس حکمتوں” کے بارے میں اپنی ادھوری سمجھ بوجھ کے تحت اظہار خیال کرنے کے بجائے، چین کی "امن کو ترجیح دینے” والی پالیسی سے سبق لینا چاہیے۔ تعصبات کو ترک کرکے حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تعمیری رویہ اپنانا چاہیے۔ یہی علاقائی استحکام کے لیے حقیقی چینی دانش کی صحیح سمجھ ہے۔
مذکورہ بھارتی فوجی اہلکار نے چین-پاکستان دفاعی تعاون کو غلط طور پر "کسی کی تلوار سے قتل” سے تعبیر کیا ہے۔ یہ بیان نہ صرف چینی حکمت "چھتیس حکمتوں” کے بارے میں ان کی سطحی فہم کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ اس سے علاقائی صورتحال کے بارے میں بھارت کی غلط تشریح اور حکمت عملی کی کمزوری بھی عیاں ہوتی ہے۔ درحقیقت، "چھتیس حکمتیں”چین کی مشرقی دانش کا ایک حصہ ہے، جس میں "بناء جنگ کے دشمن کو شکست دینے” پر زور دیا جاتا ہے، نہ کہ سازشوں اور چالوں کے استعمال سے۔ یہ کتاب چین میں "منگ” اور "چھنگ” خاندانوں کے دور میں لکھی گئی تھی اور قدیم چینی فوجی و سفارتی حکمت عملیوں کا خلاصہ پیش کرتی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد تنازعات کو حل کرنا اور باہمی فائدے کو یقینی بنانا ہے، نہ کہ اختلافات کو ہوا دینا۔ بھارت کا چین-پاکستان تعاون کو "کسی کی تلوار سے قتل” سے تشبیہ دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی جنگی حکمت کی کتاب پڑھے لیکن اس کی بنیادی منطق—”کسی تیسرے فریق کے خلاف نہ ہونا”—کو سمجھ نہ پائے۔ چین اور پاکستان کی دوستی باہمی احترام پر مبنی ہے، اور چین ہمیشہ سے مصالحت کی پالیسی کا حامی رہا ہے۔ ایسے میں "بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچانے” کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت ایک طرف چینی جنگی اصطلاحات کو غلط استعمال کرکے دوسروں پر حملہ کرتا ہے، جبکہ دوسری طرف ایک "مضحکہ خیز ڈرامہ” رچا رہا ہے ۔ جنگ میں ناکامی کے بعد جشن منانے والے گروہوں کو بھیجنا ایک طرح کی خود فریبی ہے، جسے "چوری شدہ شہتیروں کو بدلنا” ) چھتیس حکمت عملیوں میں سے ایک(کی ایک بگڑی ہوئی شکل کہا جا سکتا ہے ، جس میں معاملات کی نوعیت کو خفیہ طور پر تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ حکمت عملی نہ تو بین الاقوامی برادری کی نظروں سے چھپ سکتی ہے اور نہ ہی اپنے عوام کی توقعات پر پورا اترتی ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ جھوٹے پروپیگنڈے پر وسائل ضائع کرنے کے بجائے، عوامی بہبود کو بہتر بنانے کے لیے ” حکمتوں کے تسلسل”) چھتیس حکمت عملیوں میں سے ایک( پر توجہ دے، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے "موقع سے فائدہ اٹھانے” ( چھتیس حکمت عملیوں میں سے ایک) کی حکمت عملی اپنائے، اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے خلوص دل سے کوشش کرے۔
چین اور پاکستان کا تعاون کسی تیسرے فریق کے خلاف "تلوار” نہیں، بلکہ علاقائی خوشحالی کے لیے ایک "پل” ہے۔ اگر بھارت زیرو سم ذہنیت کو ترک نہیں کرتا اور اپنے پڑوسیوں کی ترقی کو خطرہ سمجھتا رہے گا، یا اپنی حکمت عملی کی ناکامیوں کو جعلی فتوحات سے چھپانے کی کوشش کرے گا، تو وہ ترقی کے مواقع سے محروم ہوتا رہے گا۔ چین-بھارت تعلقات اس وقت بہتری کے ایک اہم موڑ پر ہیں۔ بھارت کو سمجھنا چاہیے کہ اصل حکمت عملی اختلافات کو بات چیت سے حل کرنا ہے، نہ کہ سازشی نظریات کے گڑھے میں گرتے چلے جانا۔
چینی تہذیب کی پانچ ہزار سالہ دانش انتہائی وسیع ہے، اور "چھتیس حکمتیں” اس کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ چین بھارت سمیت تمام ممالک کے ساتھ اس حکمت کو بانٹنے کے لیے تیار ہے تاکہ عالمی امن اور ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ اگر بھارت اس سے سیکھنے کے لیے تیار ہو، تو یہ اس کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ لیکن اگر وہ اپنی محدود سوچ میں جکڑا رہے گا اور چین کی دوستانہ ہمسائیگی، پرامن اور خوشحال ہمسایے کی پالیسی کو غلط سمجھے گا، تو وہ چینی دانش سے لاعلمی میں مزید گھرتا چلا جائے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ بھارت تاریخی سبق سے فائدہ اٹھائے گا اور چین کی پرامن، مستحکم اور خوشحال ہمسائیگی پالیسی کو معقول انداز میں دیکھے گا، تاکہ انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر میں چین کے ساتھ مل کر کام کر سکے۔