ڈوبتی انسانیت: مودی حکومت کے ظلم و بربریت کا ایک اور داستان

0

تحریر: محمد محسن اقبال

مودی حکومت کی سفاکی اور غیر انسانی رویے کی ایک اور دل دہلا دینے والی کہانی منظرِ عام پر آئی ہے، جو انسان کو شرمندگی سے سر جھکانے پر مجبور کر دیتی ہے—مگر مودی حکومت شرمندہ ہونے کو تیار نہیں۔ اس بار ظلم کی یہ داستان روہنگیا مہاجرین سے متعلق ہے—جو پہلے ہی دنیا کی سب سے زیادہ ستائی جانے والی اقلیتوں میں شمار ہوتے ہیں—اب ایک ایسے سفاک عمل کا نشانہ بنے ہیں جس نے بین الاقوامی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ معتبر رپورٹس کے مطابق درجنوں روہنگیا مہاجرین کو بھارتی بحری جہازوں سے انڈمان سمندر میں اتار کر میانمار کی طرف تیرنے پر مجبور کیا گیا، اُس ملک کی طرف جہاں سے وہ نسل کشی اور منظم جبر سے بچ کر آئے تھے۔

یہ واقعہ نہ صرف خوفناک ہے بلکہ بین الاقوامی انسانی ہمدردی کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے میانمار، ٹام اینڈریوز، نے بالکل درست طور پر اسے "غیر اخلاقی اور ناقابل قبول عمل” قرار دیا ہے۔ تصور کیجیے کہ وہ لوگ، جو پہلے ہی ریاستی جبر اور بے وطنی کا زخم سہہ رہے ہیں، انہیں آنکھوں پر پٹی باندھ کر جبراً سمندر میں پھینکا جائے—یہ اقتدار کے ایوانوں میں اخلاقی گراوٹ کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ عمل بین الاقوامی اصول نون ریفولمنٹ کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو اُن افراد کو واپس اُن علاقوں میں بھیجنے سے روکتا ہے جہاں انہیں ظلم یا موت کا سامنا ہو۔

تفصیلات ہوش اُڑا دینے والی ہیں۔ درجنوں روہنگیا مہاجرین، جن کے پاس شناختی دستاویزات موجود تھیں، دہلی اور آسام سے گرفتار کیے گئے۔ ان میں سے تقریباً 40 افراد کو آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انڈمان اور نکوبار جزائر لے جایا گیا، جہاں انہیں بھارتی بحری جہاز پر سوار کیا گیا۔ پھر ایک وحشیانہ عمل کے تحت انہیں لائف جیکٹس دے کر سمندر میں اتار دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ وہ میانمار کے ایک جزیرے کی طرف تیر کر جائیں۔ اطلاعات کے مطابق وہ اس خطرناک سفر میں بچ تو گئے، لیکن اُن کا انجام تاحال معلوم نہیں۔ اسی طرح، ایک اور گروہ، جس میں تقریباً 100 روہنگیا شامل تھے، آسام کے ایک حراستی مرکز سے نکال کر بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب منتقل کیا گیا، جن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

مودی حکومت کی خاموشی اور ان واقعات کو تسلیم تک نہ کرنا، معافی مانگنا تو دور کی بات، نہ صرف پالیسی کی ناکامی بلکہ اخلاقی زوال کا اظہار ہے۔ بھارتی بحری جہاز—جو بھارت کی قومی طاقت کی علامت سمجھے جاتے ہیں—کو اس طرح بے سہارا مہاجرین کے خلاف استعمال کرنا قومی وقار کی توہین ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ یہ واقعات کوئی اکا دکا نہیں، بلکہ اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب اور ظلم کا تسلسل ہیں۔

3 مارچ 2025 کو خصوصی نمائندے ٹام اینڈریوز نے بھارتی حکومت سے رابطہ کیا اور روہنگیا مہاجرین کی بلاجواز اور غیر معینہ مدت کے لیے حراست پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے ریفولمنٹ کے خطرات سے آگاہ کیا اور مہاجرین کو منصفانہ سلوک اور حراستی مقامات تک رسائی کی اہمیت پر زور دیا۔ مگر بھارتی حکومت کا جواب نہ صرف سرد مہری پر مبنی تھا بلکہ متکبرانہ بھی—اور انہوں نے اصلاح کی بجائے ظلم میں اضافہ کر دیا۔

وہ بھارت، جو کبھی تبّت، بنگلہ دیش، افغانستان اور سری لنکا سے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے بازو پھیلائے کھڑا ہوتا تھا، آج ان بے وطن روہنگیا مسلمانوں کو سمندر میں دھکیلنے کے الزامات کی زد میں ہے۔ اپنی تہذیبی روایات—مہمان نوازی اور رحم دلی—کے برعکس، مودی حکومت نفرت، تعصب اور امتیاز کے راستے پر گامزن ہے۔ روہنگیا مہاجرین کو حراست میں لینا، اُن کے بنیادی حقوق سے انکار کرنا، اور اب انہیں سمندر میں پھینک دینا صرف غیر ملکیوں سے نفرت نہیں بلکہ ایک دانستہ اور خطرناک سیاسی حکمتِ عملی ہے تاکہ شدت پسند ہندو قوم پرست حلقوں کو خوش کیا جا سکے۔

بین الاقوامی برادری، بالخصوص انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ کو فوری طور پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف تشویش کا اظہار یا بیانات جاری کرنا اب کافی نہیں۔ سفارتی، قانونی، اور اقتصادی اقدامات کے ذریعے مودی حکومت کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ اقوامِ متحدہ کو بھارت سے ان واقعات کی وضاحت طلب کرنی چاہیے، متاثرین تک رسائی حاصل کرنی چاہیے، اور ان سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں کو سزا دینی چاہیے۔ پناہ گزینوں کا تحفظ عالمی ذمے داری ہے، اور جب بھارت جیسا بڑا اور بااثر ملک اس ذمے داری سے اس درندگی کے ساتھ انکار کرتا ہے، تو یہ دوسروں کے لیے بھی ایک خطرناک مثال بن جاتی ہے۔

مسٹر اینڈریوز کی کوششیں حمایت کی مستحق ہیں۔ وہ اگرچہ نجی اور غیر معاوضہ حیثیت میں خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر ان کی آواز عالمی ضمیر کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کی تحقیقات کو آزادانہ طور پر جاری رہنے دیا جائے اور ان کی سفارشات کو بھارت سمیت ان تمام ممالک کو سنجیدگی سے لینا چاہیے جو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے دار ہیں۔

اگر یہ واقعہ درست ثابت ہو جاتا ہے، تو یہ محض ایک انسانی سانحہ نہیں بلکہ سیاسی اور اخلاقی تباہی ہے۔ یہ بھارت کے دعوے کردہ جمہوریت اور سیکولرزم کے نقاب کو نوچ کر پھینک دیتا ہے اور اس حکومت کی اصل تصویر دکھاتا ہے جو رحم دلی کو کمزوری اور سفاکی کو طاقت سمجھتی ہے۔ وہ روہنگیا، جو میانمار کی نسل کشی سے بچ کر بھارت آئے تھے، اور یہاں سمندر میں پھینک دیے گئے، عالمی ضمیر کی ناکامی کی علامت بن گئے ہیں—لیکن اس سے بڑھ کر، وہ مودی حکومت کی انسانیت دشمن پالیسیوں کا ثبوت ہیں۔

شرمندگی انسانیت کی علامت ہے۔ مگر مودی حکومت شاید اس صلاحیت سے بھی محروم ہو چکی ہے۔ عالمی برادری کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اگرچہ مظلوموں کی آواز شاید نہ ہو، مگر اُن کا درد دنیا تک ضرور پہنچے۔ اُن کی کہانی—زندگی کی جدوجہد، بے وطنی، اور ریاستی دھوکے کی—ہمیں مسلسل یہ یاد دلاتی رہے کہ بے حسی کی قیمت کیا ہے، درندگی کی ہولناکی کیا ہے، اور ہمیں اپنی اجتماعی انسانیت کو ریاستی بربریت سے واپس کیسے لینا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.