بھارت کا دریائے سندھ کے پانی میں پاکستان کا حصہ کم کرنے کے منصوبے پر غور

0

بھارت نے دریائے سندھ کے پانی میں پاکستان کا حصہ کم کرنے کے منصوبے پر غورشروع کردیا،
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق بھارت دریائے سندھ سے نکالے جانے والے پانی کی مقدار میں اضافے کے منصوبوں پر غور کر رہا ہے جو زیریں علاقوں میں واقع پاکستانی کھیتوں کو بڑے پیمانے پر سیراب کرتا ہے۔ یہ اقدام اپریل میں ہونے والے پہلگام واقعے کے ردعمل میں کیا جا رہا ہے جس کا الزام نئی دہلی نے اسلام آباد پر عائد کیا تھا۔
نئی دہلی نے 1960 کے سندھ طاس معاہدے میں اپنی شرکت معطل کر دی ہے۔ یہ معاہدہ دریائے سندھ کے استعمال کو منظم کرتا ہے۔ یہ اقدام اس واقعے کے فوراً بعد کیا گیا جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے اور جسے بھارت نے "دہشت گردی کی کارروائی” قرار دیا تھا۔
پاکستان نے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی تاہم جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اس ہفتے کے اوائل میں دہائیوں کی بدترین لڑائی ہوئی۔ پھر جنگ بندی پر اتفاق کے باوجود اس معاہدے کو دوبارہ فعال نہیں کیا گیا۔ چھ ذرائع نے ’’رائٹرز‘‘ کو بتایا کہ 22 اپریل کے حملے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے حکام کو دریائے چناب، جہلم اور سندھ پر منصوبوں کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ تینوں آبی ذخائر دریائے سندھ کی شاخیں ہیں اور انہیں بنیادی طور پر پاکستان کے استعمال کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
دو ذرائع نے بتایا کہ زیر بحث اہم منصوبوں میں سے ایک دریائے چناب پر واقع رنبیر نہر کی لمبائی کو دگنا کر کے 120 کلومیٹر تک بڑھانا ہے جو بھارت سے گزر کر پاکستان کے اہم زرعی مرکز پنجاب کے علاقے تک جاتی ہے۔ یہ نہر معاہدے پر دستخط ہونے سے بہت پہلے انیسویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔
چار ذرائع نے ان مذاکرات اور دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے جن تک ان کی رسائی تھی بتایا کہ بھارت کو آب پاشی کے لیے دریائے چناب سے محدود مقدار میں پانی نکالنے کی اجازت ہے لیکن ایک وسیع نہر، جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے کھودنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، بھارت کو 150 کیوبک میٹر فی سیکنڈ پانی موڑنے کی اجازت دے گی جو موجودہ تقریباً 40 کیوبک میٹر سے بہت زیادہ ہے۔
رنبیر نہر کی توسیع کے حوالے سے بھارتی حکومت کے مشاورتی عمل کی تفصیلات اس سے قبل شائع نہیں کی گئیں۔ ایک ذریعے نے بتایا کہ مذاکرات گزشتہ ماہ شروع ہوئے تھے اور جنگ بندی کے بعد بھی جاری رہے۔ بھارت کی وزارتوں برائے پانی، امور خارجہ اور مودی کے دفتر نے ان خبروں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اسی طرح بھارت کی بڑی ہائیڈرو الیکٹرک پاور کمپنی (این ایچ پی سی) جو دریائے سندھ پر کئی منصوبے چلا رہی ہے نے بھی ان خبروں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.