مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی اور شام
تحریر : ایس اے گھمن
شام کے اندر حکومت کی تبدیلی پرمختلف آرا سامنے آرہی ہیں۔گو یہ تبدیلی کو غیر متوقع تھی لیکن بین الااقومی سیاسی امور کےماہرین یہ تبدیلی دور اُفق پہ دیکھ رہے تھے۔کیونکہ اسرائیل کی طرف سے ایک سال سے غزہ کے اندرجاری خونریزی اور لبنان پر حزب اللہ کے خلاف مہلک خیز جارحیت سے یہ نظر آرہا تھا کہ اسرائیل صرف سات اکتوبر ۲۰۲۳ کے انتقام اور حزب اللہ سے حساب چکانے تک محدود نہیں رہے گابلکہ اس جنگ کی آڑ میں پورے خطےمیں اپنے طویل المدت تزویراتی مفادات کے تحفظ اور گریٹر اسرائیل کوعملی جامہ پہنانے کی جانب بڑھے گا۔ شام میں بشارالااسد کی حکومت کاخاتمہ اس ایجنڈے کا حصہ تھا۔جبکہ ہم سادہ نظر اسکوسمجھنے سے قاصر تھے۔شام کے اندر بشارالااسد حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت گو بظاہر ایک ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ اور جمہوریت کی بحالی دکھائی جا رہی ہے۔لیکن یہ دونوں عذر ایک بہانہ ہیں۔جبکہ اسکا اصل مقصد شام سے ایک ایسی حکومت کا خاتمہ تھا جو طاقتور علاقائی اور بین الااقوامی قوتوں کے سیاسی عزائم کی راہ میں حائل تھی۔لہذا آج سے تیرہ سال پہلے 2011 میں عرب بہار کے نام سے چلنے والی تحریک کی آڑ میں شام کے اندر ایک خونی بغاوت کا اہتمام کیا گیا جس کے نتیجے میں انتشار پھیلا کرشام کی قومی ریاست کا شیرازہ بکھیر کر پورا ملک خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔شام کی مرکزی حکومت اور صدراسد کے اقتدار کو بچانے میں لبنان سےحزب اللہ، اور ایران نے روس کے ساتھ ملکر کلیدی کردار ادا کیا اور صدر بشار الااسد کسی حد تک بغاوت پرقابو پانے میں کامیاب ہوا۔ لیکن یہ سب عارضی اور ادھورا ہی رہا اور مستقل استحکام نہ آ سکا۔لیکن اب جب غزہ کی جنگ کے نتیجہ میں حزب اللہ اسرائیل کی طرف سے لگائی گئی کاری ضربوں کے نتیجہ میں کمزور ہوئی تو پھر بشارالاسد کے اقتدار کا مضبوط سہارا بھی ٹوٹ گیا۔اسکے علاوہ ایران بھی اسرائیل کی طرف سے مختلف کاروائیوں کے نتیجہ میں کمزور ہو گیا۔ ادھر روس یوکرائن کی جنگ میں الجھ کرمشرق وسطیٰ پر اپنی گرفت ڈھیلی کر بیٹھا۔لہذا صدر بشارالا اسد کو تنہا اور کمزور دیکھ کر بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی اور شہ پے باغی عسکری تنظیمیں دمشق پر چڑھ دوڑیں اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔باغیوں کی کامیابی کو کوئی شیعہ سُنی کے تناظر میں دیکھ رہا ہے اور کوئی اسے شامی عوام کے لیے جمہوریت کی نوید سمجھتاہے۔ جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ شامی عوام کے لیےجمہوریت کی نیک تمناؤں کے باوجود اس کے اندر پوشیدہ قوتوں کے عزائم ایک عذاب کا پیش خیمہ ہیں۔ بشارالا اسد کا فسطائیتی اقتدار شام کی تاریخ کا ایک تلخ وتاریک باب تو ضرور ہے۔ لیکن اسکا خاتمہ نہ تو فسطائیت سے نجات دلانا ہے اور نہ شامی عوام کی بھلائی مقصود ہے۔بلکہ یہ طاقتور علاقائی اور بین الا اقوامی قوتوں کے مفادات کو عمل جامہ پہنانے کی کڑی ہے۔ جس کے لیے خودمختارشامی ریاست کا خاتمہ ناگزیر تھا۔ کیونکہ اسرائیل اسے اپنی دفاعی اسٹراٹیجی سے منسلک کرتاہے۔اسرائیل حزب اللہ کےوجود کو خطرہ سمجھتا ہے لہذا حزب اللہ سے چھٹکارا اسرائیل کی اول ترجیع ہے۔اوراسرائیلی نقط نظر میں شام کے اندر موجودخودمختار اور ایران دوست حکومت حزب اللہ کو دوام دیتی ہے۔ کیونکہ ایران سے خشکی کے راستے بذریعہ شام حزب اللہ کو اسلحے اور مالی وسائل کی ترسیل ہوتی ہے ۔لہذا اسے روکنے کے لیے شامی حکومت کا خاتمہ لازم ٹھہرا۔شام میں حکومت کی تبدیلی پرخوشی منانےوالےاس پہلو سے قطعہ نظر دکھائی دیتے ہیں۔ اس تبدیلی سے بہرہ مند ہونے والے وہ نہیں جو نظر آ رہے ہیں ۔اسکا ثبوت اسرائیل کی طرف سے شام کے فوجی اور اقتصادی ڈھانچے پر بمباری ہے۔ جو یہ بتاتی ہے کہ جو کام باغی کر سکتے تھے وہ انہوں نے کیا اور بقایا کام خود اسرائیل انجام دے رہا۔ باغی لیڈر فتح دمشق کے جشن تو منا رہے ہیں۔لیکن اسرائیل کی طرف سے شام کو تہس نہس کرنے کی نہ سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی لب کشائی کی جرات۔ شام پر بیرونی جارحیت سے یہی سبق ہے کہ ملکی اور قومی انتشار غیروں کے ہاتھوں نقصان کا موجب بنتا ہے اور
شام کے اندر جو ابتک ہو چکا ہےمستقبل میں اس سے بھی زیادہ بھیانک ہو سکتا ہےجس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔شام کے مستقبل کے خاکہ نشین آج جیسے ہی ہوں گے(جاری ہے)