سیرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پاکستان میں تعلیمی اقدار کا احیاء

0

تحریر: محمد محسن اقبال

پاکستان کا تعلیمی نصاب قوم کے مستقبل کی تعمیر میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے، جس میں اخلاقی قدریں، علم اور جامع ترقی کے لیے ضروری تعلیم شامل ہو۔ اس تناظر میں، ہمارے نصاب میں حضرت محمد (ﷺ) کی زندگی اور تعلیمات، جو کہ سیرت النبی کہلاتی ہیں، کو شامل کرنا نہ صرف علمی قابلیت بلکہ طلباء کی اخلاقی اور روحانی ترقی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ سیرت النبی ایک مکمل رہنمائی ہے کہ کس طرح ایمانداری، رحم دلی اور راستبازی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے، اور اس میں حکومت، ذاتی کردار، اور سماجی برتاؤ کے حوالے سے قیمتی اسباق موجود ہیں۔ ان اسباق کو صرف اسلامیات تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ انہیں پاکستان کے تعلیمی نظام کے وسیع تر حصے میں ضم کرنا چاہیے۔

حضرت محمد (ﷺ) کی زندگی کا ایک اہم پہلو علم اور سیکھنے کے لیے ان کا عزم تھا۔ آپ کی پہلی وحی میں "اقرا” (پڑھ) کے ذریعے علم حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام میں تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی صنف یا سماجی حیثیت سے ہو۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: "کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے برابر ہو سکتے ہیں؟” (سورہ زمر، 39:9)، جو علم حاصل کرنے پر الٰہی زور دیتا ہے۔ پاکستان میں، جہاں معیاری تعلیم تک رسائی غیر مساوی ہے، اس سبق کو اپنانا ضروری ہے۔ نصاب کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ تعلیم کا حق معاشرے کے تمام طبقوں تک پہنچے، خاص طور پر لڑکیوں اور پسماندہ برادریوں کے بچوں تک۔ قرآن مجید واضح طور پر مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے تعلیم میں مساوات پر زور دیتا ہے: "اور دعا کرو، ‘اے میرے رب، میرے علم میں اضافہ فرما'” (سورہ طٰہٰ، 20:114)۔ سیرت النبی ایک جامع اور مساوات پر مبنی تعلیم کے حق میں ہے، جو ہماری اصلاحات کا مرکزی نقطہ ہونا چاہیے۔

حضرت محمد (ﷺ) کی زندگی اخلاقی کردار، انصاف اور ہمدردی کی اہمیت کو بھی سکھاتی ہے، جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ان اصولوں کو پاکستانی نصاب میں شامل کرنے کا مطلب ہوگا کہ تعلیم میں کردار سازی کو بنیادی حیثیت دی جائے۔ محض رٹے کی بنیاد پر یا تکنیکی مہارتوں پر زور دینے کے بجائے، نصاب کو طلباء کو اس بات پر غور کرنے کی ترغیب دینی چاہیے کہ وہ انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو کیسے سمجھیں۔ مثلاً، طلباء کو سچائی، مہربانی، صبر، اور انصاف کی اہمیت سکھائی جانی چاہیے—وہ اقدار جو حضرت محمد (ﷺ) نے اپنی زندگی میں اپنائیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: "تم میں سے بہترین وہ ہیں جن کے اخلاق و کردار بہترین ہیں” (صحیح بخاری)۔ اگر یہ اسباق ابتدائی عمر سے شامل کیے جائیں تو ایک زیادہ اخلاقی، ہمدرد، اور انصاف پسند معاشرے کی تشکیل میں مدد مل سکتی ہے۔

نصاب کو اسلامی تعلیمات کی عملی اطلاق پر بھی زور دینا چاہیے۔ حضرت محمد (ﷺ) نہ صرف ایک روحانی رہنما تھے بلکہ ایک ریاستی حکمران، فوجی کمانڈر، اور مصلح بھی تھے۔ ان کی زندگی میں قیادت، تنازعہ کے حل، سفارتکاری اور سماجی بہبود کے حوالے سے قیمتی اسباق موجود ہیں۔ ان کے یہ پہلو مضامین جیسے کہ شہریات، تاریخ، اور سیاسیات میں بطور مطالعہ شامل کیے جا سکتے ہیں تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ اسلامی اقدار کو جدید مسائل کے حل کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً، طلباء صلح حدیبیہ کے معاہدے کو ایک امن معاہدے کے ماڈل کے طور پر مطالعہ کر سکتے ہیں یا زکوٰۃ (صدقات) کے تصور کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور اسے جدید دور کے سماجی انصاف کے مسائل سے جوڑ سکتے ہیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: "جو یتیم یا مسکین کی دیکھ بھال کرتا ہے، وہ اس شخص کی طرح ہے جو اللہ کی راہ میں لڑتا ہے” (صحیح بخاری)۔ یہ اسباق طلباء کو یہ سمجھنے میں مدد دیں گے کہ کس طرح اسلامی اصولوں کو موجودہ حالات میں ڈھالا جا سکتا ہے، اور ان میں ایک قومی فریضے اور اخلاقی قیادت کا جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔

مزید برآں، سیرت النبی کی تعلیمات تنقیدی سوچ اور تحقیق کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔ حضرت محمد (ﷺ) نے اپنے پیروکاروں کو سوالات کرنے، غور کرنے، اور عقل کے استعمال سے دنیا کو سمجھنے کی ترغیب دی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ نصاب میں اکثر تنقیدی سوچ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اس کے بجائے رٹنے کی عادت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ آپ (ﷺ) کے طرز عمل کو اپنا کر ہم اپنے تعلیمی نظام کو اس طرح تبدیل کر سکتے ہیں کہ یہ طلباء میں تجسس، تخلیقی صلاحیتوں اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیتوں کو فروغ دے۔ نصاب کو طلباء کو سوالات کرنے، مباحثہ کرنے اور خیالات میں مشغول ہونے کی ترغیب دینی چاہیے، بجائے اس کے کہ وہ صرف حقائق کو یاد رکھیں۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: "کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے، یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟” (سورہ محمد، 47:24)۔ اس نقطہ نظر سے نہ صرف علمی صلاحیتوں میں اضافہ ہو گا بلکہ طلباء کو اسلامی تعلیمات کی گہری سمجھ بھی حاصل ہو گی، جو انتہاپسندی یا جمود سے پاک ہوگی۔

ایک متوازن تعلیمی نظام کو مذہبی اور دنیوی علوم کی اہمیت کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ حضرت محمد (ﷺ) نے مذہبی تقویٰ اور دنیاوی امور کی ہم آہنگی کو اپنے عمل سے ظاہر کیا۔ آپ (ﷺ) بہت زیادہ روحانی تھے، لیکن آپ نے روزمرہ زندگی میں عملی مہارتوں اور علم کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ قرآن کہتا ہے: "اور اللہ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے” (سورہ البقرہ، 2:31)، جو دنیاوی علم کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ پاکستانی نصاب کو اس توازن کی عکاسی کرنی چاہیے۔ مذہبی تعلیم اہم ہے، لیکن سائنس، ریاضی، معیشت، اور ٹیکنالوجی جیسے مضامین کو بھی برابر اہمیت دی جانی چاہیے۔ اسلامی اصولوں کو جدید علوم کے ساتھ جوڑ کر ہم ایک جامع تعلیمی تجربہ فراہم کر سکتے ہیں، جس سے طلباء کو جدید دنیا کی پیچیدگیوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی مذہبی شناخت پر قائم رہنے میں مدد ملے گی۔

سیرت النبی کو نصاب میں شامل کرنے کا مطلب طلباء کے درمیان اتحاد اور بھائی چارے کے جذبے کو فروغ دینا بھی ہے۔ حضرت محمد (ﷺ) مختلف پس منظر اور قبائل کے لوگوں کو ایک مشترکہ مقصد کے تحت جمع کرنے کے لیے مشہور تھے۔ پاکستان جیسے متنوع ملک میں، ہمارے تعلیمی نظام کو مختلف قومیتوں، مسالک، اور پس منظر کے طلباء کے درمیان اتحاد اور رواداری کو فروغ دینا چاہیے۔ آپ کی شمولیت پسندی، قبائلیت کے خاتمے کی کوششیں، اور مختلف ثقافتوں کا احترام سوشل اسٹڈیز اور تاریخ جیسے مضامین میں ایک مرکزی موضوع ہونا چاہیے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے: "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقے میں نہ پڑو” (سورہ آل عمران، 3:103)۔ اس سے طلباء کو تنوع کی قدر کرنے اور ایک زیادہ مربوط اور روادار معاشرے کی تشکیل میں مدد ملے گی۔

اس کے علاوہ، حضرت محمد (ﷺ) کی تعلیمات خود نظم و ضبط اور محنت کی ترغیب دیتی ہیں، جو ذاتی اور قومی ترقی کے لیے اہم ہیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: "اللہ اس شخص کو پسند کرتا ہے جو جب کوئی کام کرتا ہے تو اسے مکمل اور درست کرتا ہے” (البيہقی)۔ آج کے دور میں، جہاں فوری تسکین اور شارٹ کٹس کو اکثر سراہا جاتا ہے، سیرت النبی ہمیں صبر و تحمل اور محنت کے لازوال اسباق فراہم کرتی ہے۔ ان اقدار کو طلباء میں غیر نصابی سرگرمیوں، اسکول کی پالیسیوں، اور ایسی تدریسی حکمت عملیوں کے ذریعے شامل کیا جا سکتا ہے جو کوشش، مستقل مزاجی اور ہر کام میں اخلاقی طرز عمل پر زور دیتی ہیں۔

نتیجتاً، پاکستان کا تعلیمی نصاب سیرت النبی کی زندگی اور تعلیمات کو شامل کر کے ایک تبدیلی کی قوت بن سکتا ہے۔ اس طرح ہم اپنے طلباء میں نہ صرف علمی صلاحیتوں کو فروغ دے سکتے ہیں بلکہ ان کی اخلاقی اور روحانی ترقی بھی کر سکتے ہیں۔ سیرت النبی کی تعلیمات ذاتی کردار، سماجی انصاف، قیادت، اور علم کے حصول کے لیے ایک جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں—جو کہ ایک پرامن، خوشحال اور انصاف پسند معاشرے کی تعمیر کے لیے ضروری ہیں۔ اگر ان اصولوں کو ہمارے تعلیمی نظام میں شامل کیا جائے، تو پاکستان کی آئندہ نسل علمی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے اس قابل ہو گی کہ وہ جدید دنیا کے چیلنجز کا سامنا کر سکیں اور اپنے مذہبی اور ثقافتی ورثے کے ساتھ سچے رہ سکیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.